عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف توہین مذہب کی تحقیقات کا عدالتی حکم
عورت مارچ کے منتظمین پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مقامی عدالت نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی ریلی کے منتظمین پر لگائے گئے توہین مذہب کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے منتظمین کے خلاف درج مقدمے میں تحقیقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو ہونے والی ریلی کی ویڈیوز اور تصاویر میں ردو بدل کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ گئیں جن کی بنیاد پر الزامات لگائے گئے۔
پشاور میں وکلا کے ایک گروپ نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والی ریلی کے شرکا کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر ’غیر اسلامی اور فحش‘ نعرے اور پیغامات درج تھے جن میں پیغمبر اسلام اور ان کی ایک زوجہ کی توہین کی گئی۔
عورت مارچ کے منتظمين کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جھوٹے اور اشتعال انگیز الزامات بالخصوص گستاخانہ نعرے اور بینرز کے حوالے سے بیانات کی حقیقت سے پہلے بھی کئی مرتبہ پردہ اٹھایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا مقرر ہے، تاہم اب تک کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ توہین رسالت کے مشتبہ ملزمان کو اکثر مشتعل افراد قتل کر دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پاکستان میں طالبان کی کالعدم تنظیم نے بھی 12 مارچ کو عورت مارچ کے شرکا کے خلاف دھمکی آمیر بیان جاری کیا تھا۔
عدالتی حکم کے بعد عورت مارچ کے منتظمين نے سماجی کارکنان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت سے اپیل کی ہے۔