حمزہ شہباز 10 اپریل کو ہونے والے ڈسکہ کے ضمنی انتخابات پر توجہ دیے ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد پی ڈی ایم کے اندر پھوٹ پڑنے سے بظاہر حکومت کے خلاف جاری تحریک ماند پڑ گئی ہے اور اس دوران مریم نواز جو کہ پی ڈی ایم کی تحریک میں خاصی متحرک رہی ہیں فی الوقت خاموش ہیں۔
لیکن پھر بھی اس دوران انھیں اپنے بیرون ملک جانے کی خبروں کی سختی سے تردید کرنی پڑی۔
مسلم لیگ نون کے مطابق مریم نواز علیل ہیں اور اس وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے رہی ہیں تاہم حکومتی ترجمان اور کئی ٹی وی چینلز پر تجزیہ کار اس بیماری کو ماننے کو تیار نہیں اور اس کو ملک سے باہر جانے کی ’سازشی تھیوری‘ سے جوڑ رہے ہیں۔
مریم نواز نے البتہ اکتیس مارچ کو اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ان چہ مگوئیوں کی سختی سے تردید کی۔
انہوں نے ٹویٹ میں کہا ’چند دن بیمار کیا ہوئی، کانپتی لرزتی حکومت کو امید ہو گئی کہ شاید مریم علاج کروانے باہر جانے لگی ہے۔ آپ کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے لیے بتا دوں کہ مریم کا آپ کو گھر بھیجنے تک کہیں جانے کا ارادہ نہیں ۔ مریم ادھر بیٹھ کر آپ کا علاج جاری رکھے گی۔‘
ان کے اس ٹویٹ کے بعد چہ مگوئیاں تو ماند پڑیں لیکن چار اپریل کو پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کے ایک بیان سے یہ تاثر بھی آیا کہ پس پردہ کچھ معاملات چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے مریم کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے منع کر دیا ہے۔‘
انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ’کسے‘ منع کیا گیا۔ اور مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکوالنے کے لیے کون سرگرم ہے۔ البتہ مریم نواز نے اس بیان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ’یہ مجھے زبردستی باہر بھجوانے کا ڈرامہ رچانا چاہ رہے ہیں‘۔ مریم نواز نے ایک بار پھر اپنے باہر جانے کی خبروں کی تردید کی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ مریم نواز کی بیماری کی نوعیت کیا ہے جس کے باعث انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کر رکھی ہیں۔ ان کے ترجمان کے مطابق مریم نواز کا کورونا ٹیسٹ ایک بار منفی آیا، اب ان کا ٹیسٹ دوبارہ کروایا گیا ہے۔
اس سے پہلے دومرتبہ ایسے ہوا کہ مریم نواز کے ملک سے باہر جانے کی چہ مگوئیوں میں شدت آئی۔ پہلی دفعہ نومبر 2019 میں جب لاہور ہائی کورٹ نے ان کو چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت پر رہا کیا تو ان کا پاسپورٹ ضمانتی مچلکوں کے ساتھ عدالت نے جمع کر لیا تھا۔
اس کے بعد دسمبر میں مریم نواز نے عدالت سے دوبارہ رجوع کیا کہ ان کا نام ای سی ایل سےنکالا جائے اور ان کا پاسپورٹ بھی واپس کیا جائے وہ اپنے والد کی تیمارداری کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی ہیں۔ ان درخواستوں کی آخری سماعت دس فروری 2020 کو ہوئی جس میں نیب نے پاسپورٹ دیے جانے کی مخالفت کی تھی۔ بعد ازاں کورونا کے باعث یہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا۔
پندرہ فروری 2021 کو ڈسکہ ضمنی انتخاب کی مہم کے دوران مریم نواز نے ہلکا سا اشارہ دیا کہ ’میرے گلے کی سرجری ہونی ہے جو پاکستان میں نہیں ہوسکتی‘ البتہ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے بھی باہر نہیں جائیں گی۔ خواہ کوئی گھر آ کر انہیں باہر جانے کا کہے۔
پاکستانی سیاستدانوں کے ملک سے باہر جانے اور واپس آنے کی ایک تاریخ ہے۔ شریف فیملی کے افراد بھی متعدد بار سیاسی بنیادوں پر ملک سے باہر رہے ہیں۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں تقریبا پورے شریف خاندان کو دسمبر 2000 میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
نومبر 2019 میں سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ چلے گئے ابھی تک وہیں ہیں۔ تاہم ان سے ایسے بیان بھی منسوب کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک نہیں جانا چاہتے تھے۔