انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں صدارتی محل سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر لودھی گارڈن واقع ہے جس کا شمار شاندار سبزہ زار باغوں میں ہوتا ہے۔
اس کے آس پاس مشہور تاریخی صفدر جنگ مدرسہ ہے۔ اس باغ میں لودھی حکمرانوں کی یادگاریں بکھری ہوئی ہیں وہیں ایک ویران مسجد بھی ہے۔
اس باغ کے آس پاس سرکاری بنگلے اور وزرا کے آشیانے ہیں۔
اس لودھی گارڈن میں اہم ترین آثار قدیمہ ہیں۔ یہاں دو بادشاہوں (محمد شاہ اور سکندر لودھی) کے مقبروں کے علاوہ ایک بڑا گنبد ہے جسے 1490 میں سکندر لودھی نے تعمیر کروایا تھا۔
سہ میناری مسجد جو بڑے گنبد کے احاطے میں ہے، اسی کے ساتھ شیش گنبد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ابراہیم لودھی نے تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بالائی حصے میں چمکدار شیشے لگے ہوئے تھے۔
یہاں ایک آٹھ پلہ بھی ہے، جو سولہویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبر کے عہد میں تعمیر ہوا تھا۔ جو کہ اب میکس ملر شاہراہ سے متصل جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ سکندر لودھی کے مقبرہ کے قریب ایک خوبصورت حوض بھی ہے۔
چونکہ یہ باغ دہلی کے انتہائی ہائی پروفائل علاقہ میں واقع ہے، جہاں حکومت کے سربراہان، بیوروکریٹس اور اہم شخصیات رہائش پذیر ہیں، اس لیے یہ باغ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
یہ پورا باغ تاریخی کھنڈرات سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ایسا احساس ہوتا ہے جیسے عہد قدیم کے بکھری نشانیوں کے سایہ میں لودھی گارڈن قائم ہے۔
گارڈن میں لودھی بادشاہوں کے مقبروں کے علاوہ کئی نامعلوم قبریں بھی ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
دہلی کے آثار قدیمہ کے ماہر اور تاریخ دان سہیل ہاشمی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جسے آج ہم لودھی گارڈن کہتے ہیں اس نے 1938 میں باغ کی شکل لی۔ اس وقت یہ لیڈی ولنگڈن پارک کہلاتا تھا۔‘
آزادی سے قبل یہ علاقہ خالی تھا، سکندر لودھی کے مزار کے پاس ایک گاؤں بسا تھا، جسے خیر پور کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور گاؤں تھا۔ جسے وہاں سے ہٹا کر جنگ پورہ میں آباد کیا گیا۔ اس کا نام مغل گارڈن 1947 میں رکھا گیا۔
1968 میں نیو دہلی میونسپل کونسل نے جوزف اسٹائن کی مدد سے پارک کو ریڈیزائن کیا، جوآج ہمیں لودھی گارڈن کی شکل میں نظر آتا ہے۔
اس باغ میں ایک مسجد ہے جو بڑے گنبد کے احاطے میں ہے۔ اس کی تعمیر 1494 کے آس پاس سکندر لودھی کے عہد میں ہوئی تھی۔
اس مسجد کی دیواروں اور محرابوں میں بڑی خوبصورتی سے قرآنی آیات نقش ہیں، باہر اور اندر ہر جگہ آیات کی نقش نگاری ہوئی ہے۔ لیکن اب کئی حصوں پر سمپل پلاسٹر کر دیا گیا ہے۔
یہ مسجد بھی ویران ہے اور یہاں سیاح جوتوں سمیت داخل ہوتے ہیں۔ کچھ منچلے عاشقوں کے مسجد کی دیواروں پر محبت کے پیغامات لکھے صاف نظر آتے ہیں۔
سنہ 1938 میں لودھی گارڈن کو باغ کی شکل دی گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)
متھرا سے گھومنے آئیں کرشنا اپادھیائے کہتی ہیں کہ عاشقی کرنی ہے تو دل سے کریں دیواروں کو خراب کرکے کیا ملے گا؟
ان کے مطابق یہ باغ بہت انوکھا ہے اور یہاں تاریخی عمارتوں کو دیکھنے کا احساس الگ ہے۔
اس مسجد سے کچھ فاصلے پرشیش محل واقع ہے، یہاں کئی نامعلوم قبریں ہیں۔
یہاں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فوٹو سیشن میں مصروف رہتے ہیں۔
سہیل ہاشمی کے مطابق شیش محل میں نصف درجن قبر ہیں جن کے بارے میں تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔