Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 ’حوثی ہولوکاسٹ ‘،ایتھوپیا کے عبدالکریم پر کیا گزری؟

انسانی حقوق تنظیموں نے حادثے کا شکار افراد کی تعداد 450 کے قریب بتائی۔(فوٹو عرب نیوز)
23 سالہ عبدالکریم ابراہیم محمد حالیہ تشدد سے ایتھوپیا کے اورومیا علاقے سے بھاگ نکلے تو انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یمن کے حوثیوں کے قبضے میں آ جائیں گے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق عبدالکریم تنازعات کا شکار ایتھوپیا سے فرار کے لئے متعدد دیگرہم وطنوں کی طرح بے چین تھے۔
عبدالکریم نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا  کہ اس حوثی ملیشیا نے 2015 میں یمن کے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔
جب وہ پہلی بار بحر احمر کے پار  کرنے کے لیے اپنے خطرناک سفر پر نکلے تو عبدالکریم نے خلیجی عرب ریاستوں میں سے ایک ریاست میں داخل ہونے کے بارے میں سوچا تھا جہاں کچھ مواقع اور خوشحالی اس کی منتظر ہو۔

 انکشاف کیا گیا کہ حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں بھی کچھ نہیں کرتیں۔(فوٹو عرب نیوز)

واقعات نے اس کے آبائی ایتھوپیا میں خوفناک موڑ لیا تھا جہاں بڑھتی بدامنی اور سیاسی کشیدگی کے باعث سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی تھی۔
 انسانی حقوق کی پامالی ، مسلح گروہوں کے حملوں، فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد نے ہزاروں افراد کو بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
عبد الکریم کا حوثیوں سے پہلا مقابلہ اس کے صنعا پہنچنے کے صرف دو دن بعد ہوا، جب ملیشیا کے دوارکان  بازار میں اس کے پاس آئے۔
 انہوں نے لوگوں کے ہجوم  میں سے اسے اکیلا کیا اور اس کی شناخت پوچھی اور اسے حراست میں لے لیا ۔ اسے شہر کی امیگریشن ، پاسپورٹ اور نیچرلائزیشن اتھارٹی ’آئی پی این اے‘ ہولڈنگ سہولت میں لے جایا گیا جہاں سینکڑوں افریقی تارکین پہلے سے موجود تھے۔
ان میں 20 سالہ عیسیٰ عبد الرحمان حسن بھی تھے  جو صنعا کے ایک ریستوران میں اپنے سفر کے اخراجات جمع کرنے کے لیے شفٹ میں کام کر رہے تھے جب حوثی ملیشیا نے حملہ کیا اور اسے حراستی مرکز لے گئی وہاں اسے درجنوں دیگر افراد کے ساتھ ایک مخصوص پناہ گاہ میں رکھا گیا۔

حالات کا سامنا کرنے سے قاصر تارکین وطن نے بھوک ہڑتال کر دی تھی۔(فوٹو عرب نیوز)

یہاں آمد کے تین ماہ بعد ریکارڈ کی گئی ایک وڈیو میں اس نے اشاروں سے بتایا کہ دیکھو ، ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کھانا نہیں، پانی نہیں۔ کچھ لوگ بہت زیادہ تھک چکے ہیں۔
یہاں ہمارے پاس دوائی تک نہیں ہے اور اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں بھی ہماری پروا نہیں کرتیں۔
ادھر ہیومن رائٹس واچ نے متعدد اکاؤنٹس کی تصدیق کی ہے جس میں عیسیٰ کی طرح حراستی مرکز میں حالات کو  انتہائی مفلوج قرار دیا گیا ہے ، جہاں کوئی سہولت نہیں اور ایک چھت تلے ساڑھے 5 سو تارکین وطن موجود ہیں۔
واضح رہے کہ یہاں پر حالات کا سامنا کرنے سے قاصر تارکین وطن نے 7 مارچ کو  بھوک ہڑتال بھی کر دی تھی۔
’کیمپ میں موجود افراد کے مطابق حوثی گارڈز نے تارکین وطن پر آنسو گیس فائر کرتے ہوئے آخری کلمہ  پڑھنے کا کہا اور یہاں جلد ہی آگ بھڑک اٹھی ۔‘
دھوئیں اور آگ کے باعث افراتفری کے عالم میں تارکین وطن فرار ہونے کی مایوسی میں ایک دوسرے کو روند تے رہے۔
حوثیوں کے مطابق  اس حادثے میں  40 تارکین وطن دھوئیں اور شعلوں  کی نذر ہو گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے حادثے کا شکار افراد کی  تعداد 450 کے قریب بتائی ہے اور ان میں متاثرین کا ذکر نہیں۔

کیمپ میں موجود تارکین فرارکی کوشش میں ایک دوسرے کو روند تے رہے۔(فوٹو عرب نیوز)

ایتھوپین عبدالکریم اس دوران  باتھ روم میں تھے تو وہ بچ گئے جب کہ  اس کے بازو شدید جھلس گئے۔
انھیں سرکاری ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں وہ کھڑکی سے دیکھ سکتاے تھے کہ طبی سہولتوں کے آس پاس سیکیورٹی کی بھاری نفری موجود ہے جو رشتہ داروں اور امدادی ایجنسیوں کو زخمیوں تک پہنچنے سے روک رہی ہے۔
عبدالکریم کو خوف تھا کہ انھیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گاچنانچہ وہ ہسپتال سے فرار ہو گئے۔
اپنے زخموں کے باوجود عبدالکریم نے صنعا میں یو این ایچ سی آر کی عمارت کے باہر ہلاک ہونے والوں  کے لواحقین کے ساتھ مل کر ملزموں سے حساب لینے کے لئے بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اورومیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشن ’او ایچ آر او‘ کی جانب سے عرب نیوز کے ساتھ شیئر کی گئی ایک وڈیو میں عبدالکریم نے کہا ہےکہ یو این ایچ سی آر نے ہمارے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم احتجاج شروع ہونے کے صرف دو دن بعد ’ یو این ایچ سی آر‘ کا ایک رکن باہر آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ وہ یعنی ایجنسی کا عملہ بھی ہمارے ہی جیسے مہاجر ہیں ،ایسے مہمان جو کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔
 

شیئر: