Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی کا مقابلہ، کراچی میں عید کے لیے ملبوسات قسطوں پر دستیاب

پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے مختلف اشیا کی قسطوں میں خریداری کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ فوٹو کریڈٹ: دی بِگ سٹورز
کراچی میں عید کی آمد سے قبل اپنی نوعیت کی ایسی منفرد دکان کھلی ہے جہاں اب سلے سلائے کپڑے بھی سارا سال ماہانہ اقساط پر دستیاب ہوں گے۔
بدھ کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں کپڑوں کی اس نئی ریٹیل آؤٹ لیٹ کا افتتاح ہوا، کورونا ایس و پیز کے باعث اسے آن لائن محدود رکھا گیا۔ اس دکان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں پہلی بار سلے سلائے کپڑے بھی ماہانہ اقساط پر دستیاب ہوں گے۔
یہ آؤٹ لیٹ کراچی میں ریٹیل برانڈ سرمہ والا کی جانب سے کھولی گئی ہے، جو اس سے پہلے کئی برس سے الیکٹرانکس، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان ماہانہ اقساط پر بیچتے آ رہے ہیں۔
الیکٹرانکس اور فرنیچر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث کراچی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ان اشیا کی ماہانہ اقساط پر خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔
سرمہ والا کی نمائندہ اقصیٰ بلال نے اس حوالے سے اردو نیوز کو تصدیق کی کہ قسطوں پر کپڑوں کی خریداری جمعرات سے ممکن ہو سکے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص 20 ہزار روپے یا زائد مالیت کے کپڑے خریدتا ہے تو پھر اس کے پاس آپشن ہوگا کہ اگر وہ چاہے تو رقم کی ادائیگی 12 ماہ تک اقساط کے ذریعے کر سکتا ہے۔
اس موقع پر جاری بیان میں سرمہ والا کی جانب سے بتایا گیا کہ ماہانہ اقساط پر کپڑوں کی فروخت کا فیصلہ مارکیٹ کی ضرورت اور اس مہنگائی کے دور میں صارفین کی قوت خرید کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصے سے لوگوں میں آن لائن سٹورز سے ماہانہ اقساط میں اشیا کی خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جبکہ آن لائن سٹورز بھی انسٹالمنٹ کو فروغ دے رہے ہیں اور متعدد ایسی آفرز دیتے ہیں جن میں بنا کسی مارک اپ اور اضافی ادائیگی کے لوگ 3 سے 12 ماہ کی اقساط میں اشیا خرید سکتے ہیں۔

عائشہ منیر کہتی ہیں کہ ’بچوں کے کپڑوں کی خریداری مہنگا کام ہو گیا ہے۔ فوٹو بشکریہ: سرمہ والا

صارف نبیل حنیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز ہی آن لائن سٹور سے ایئر کنڈیشن ماہانہ اقساط میں خریدا ہے، ’کیونکہ اے سی کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی ہے، اور آن لائن اقساط میں کوئی مارک اپ بھی نہیں تھا، لہٰذا مارکیٹ کے بجائے آن لائن خرید لیا۔‘
ہاؤس وائف عائشہ منیر اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’بچوں کے کپڑوں کی خریداری اب خاصا مہنگا کام ہو گیا ہے، اچھے پارٹی ویئر کپڑوں کی قیمت پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ خواتین کے اچھے ڈریسز بھی 10 ہزار سے کم میں دستیاب نہیں۔ ایسے میں اگر کسی متوسط گھرانے میں دو تین بچے بھی ہیں اور وہ عید پر صرف ایک جوڑا بھی بنوائیں تو یہی خرچہ 30 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔‘

سرمہ والا کی جانب سے بتایا گیا کہ ماہانہ اقساط پر کپڑوں کی فروخت کا فیصلہ مارکیٹ کی ضرورت ہے۔ فوٹو بشکریہ: سرمہ والا

انہوں نے کہا کہ ’ایسے میں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اب کپڑے بھی قسطوں پر ملیں گے‘.
اس سے قبل مختلف آن لائن سٹارٹ اپس کی جانب سے قیمتی اور عروسی ملبوسات کرائے پر دیے جانے کا سلسہ دیکھنے میں آیا تھا جس میں لوگ عروسی ملبوسات یا شادی بیاہ میں پہننے کے لیے دیگر ملبوسات کرائے پر حاصل کرتے تھے، کیوں کہ ایسے ملبوسات کی اصل قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔

شیئر: