Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حالیہ تاریخ میں غداری اور بغاوت کے مقدمات میں کون کون سے سیاست دان گرفتار ہوئے؟

جاوید لطیف کو ایک ٹی وی انٹرویو میں ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا (فوٹو: جاوید لطیف فیس بُک)
لاہور کی سیشن عدالت سے منگل کو مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چند ھفتے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں میاں جاوید لطیف کے خلاف لاہور میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
وہ بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار ہونے والے پہلے سیاست دان یا پاکستانی نہیں ہیں۔
معروف محقق ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق ’پاکستان میں اپوزیشن کے ہر فرد کو غدار قرار دیا جا چکا ہے۔ ماضی میں غداری یا بغاوت کے الزامات کے تحت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے رہنما خان عبدالولی خان، عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو گرفتار ہو چکے ہیں۔‘

 

 ’اسی کی دہائی میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد بھی کئی ایسی گرفتاریاں سامنے آچکی ہیں۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں ایک دوسرے پر الزامات تو لگائے گئے مگر غداری کے مقدمے قائم کرکے گرفتاری کسی کی عمل میں نہیں آئی۔‘

مخدوم جاوید ہاشمی کو 23 سال قید کی سزا

ایسی پہلی اہم گرفتاری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں آئی جب اکتوبر 2003 میں اس وقت کے اپوزیشن اتحاد (اے آر ڈی) کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو فوج میں بغاوت پھیلانے کے الزام میں مقدمے کے اندراج کے بعد پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا۔
جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر بھی تھے۔وہ اس جرم میں طویل جیل کاٹنے کے بعد اگست 2007 کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے تھے۔

الطاف حسین اور نواز شریف پر بغاوت کے مقدمے

22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے ایک متنازع تقریر کے بعد ملک بھر میں ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ان کی تقاریر اور بیانات کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی اور انسداد دھشت گردی کی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

جاوید ہاشمی کو 2003 میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا اور وہ 2007 میں رہا ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

الطاف حسین کو انسداد دھشت گردی کی عدالت نے تشدد پر اکسانے اور ریاست کے خلاف تقاریر پر 81 برس قید کی سزا سنائی تھی تاہم چونکہ وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں اس لیے سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
دوسری طرف گذشتہ سال اکتوبر میں نواز شریف، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کے خلاف ایک جلسے میں کی جانے والی تقاریر کی بنا پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم بعد میں اس مقدمے سے نواز شریف کے علاوہ باقی نام خارج  کر دیے گئے تھے۔ نواز شریف چونکہ علاج کے لیے برطانیہ میں مقیم ہیں اس لیے ان کے خلاف مزید کاروائی عمل میں نہیں لا جا سکی۔

ایم این اے علی وزیر کی گرفتاری

گذشتہ سال دسمبر میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر کے خلاف مقدمے میں بغاوت اور غداری کی دفعات شامل کی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)

علی وزیر کے خلاف کراچی کے تھانہ سہراب گوٹھ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں بغاوت اور غداری کی دفعات شامل کی گئیں۔
ایف آئی آر کے مطابق علی وزیر پر الزام لگایا کہ سہراب گوٹھ جلسے میں ان سمیت دیگر افراد نے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور جلسے میں نعرے بازی بھی کی۔
اس سے قبل دسمبر 2020 میں پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کو بھی بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

غداری کے مقدمات عدالت میں ثابت نہیں ہوتے

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تاریخ دان ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں غداری کے مقدمات اور گرفتاریوں کی روایت پرانی ہے مگر حالیہ تاریخ میں زیادہ تر مقدمات عدالتوں میں ثابت نہیں ہوتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زبانی الزامات لگا دینے یا مقدمہ بنا دینے سے کوئی انسان غدار نہیں ہو جاتا جب تک کہ عدالت میں اس پر جرم ثابت نہ ہو جائے۔‘
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق ’پاکستان میں اپوزیشن کے تقریباً ہر سیاست دان کو غدار قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔‘
’مختلف مسائل پر لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہے تاہم جس کی رائے پسند نہیں آتی اسے غدار قرار  دے دیا جاتا ہے جو کہ ایک غیر جمہوری رویہ ہے۔‘

شیئر: