مسجد نبوی کی حفاظت پر مامور خواتین سکیورٹی اہلکار: ’ذمہ داری اور اعزاز بھی‘
مسجد نبوی کی حفاظت پر مامور خواتین سکیورٹی اہلکار: ’ذمہ داری اور اعزاز بھی‘
جمعرات 29 اپریل 2021 10:15
سعودی عرب میں مسجد الحرام کے بعد مسجد نبوی کی حفاظت کے لیے بھی درجنوں کی تعداد میں خواتین سکیورٹی افسران تعینات کی گئی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق 113 خواتین افسران پر مشتمل خصوصی دستہ چھ ماہ قبل تیار کیا گیا تھا جو مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی سکیورٹی کے علاوہ زائرین کو مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔
اس دستے میں شامل تمام خواتین اہلکاروں کو فوجی ٹریننگ دی گئی ہے۔ یہ سعودی عرب کی خصوصی سکیورٹی فورسز میں ہوم لینڈ سکیورٹی برانچ کا حصہ ہیں۔
خواتین سکیورٹی افسران 24 گھنٹے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حفاظتی ڈیوٹی پر مامور ہوتی ہیں۔ انہیں 18 اراکین پر مشتمل چار ٹیمیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مدینہ پولیس کے ڈائریکٹر میجر جنرل عبدالرحمان المشان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین افسران کا کام سکیورٹی کے علاوہ عمرہ زائرین کی مدد کرنا بھی ہے۔
ان خواتین کو اپنا تحفظ کرنے، ابتدائی طبی امداد کی فراہمی، اور اسلحے کے استعمال کی ٹریننگ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عربی اور انگریزی زبان میں کورس لینے کے علاوہ کمپیوٹر اور فٹنس سے متعلق کورسز بھی لیے ہیں۔
27 سالہ ہنان الرشید نے عرب نیوز کو بتایا کہ مسجد نبوی میں تعینات ہونا اور اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت کرنا باعث فخر ہے۔
ہنان الرشید نے سعودی ویژن 2030 کا حصہ بنتے ہوئے اپنے ملک کا جھنڈا لہرانے پر فخر کا اظہار کیا۔ ہنان الرشید کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں موجودہ دور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت نے خواتین کو متعدد مواقع فراہم کیے ہیں، ڈرائیونگ سے لے کر کسی بھی شعبے میں خواتین مردوں کے برابرا ہیں۔
سکیورٹی دستے کی ایک اور رکن اہلکار ریم المحجوب نے کہا کہ ’ویژن 2030 نے سعودی خواتین کو بااختیار بنایا ہے کہ وہ فوج، ایوی ایشن اور دیگر حکومتی اداروں میں کام کر سکتی ہیں۔‘
27 سالہ ریم المحجوب گزشتہ چھ ماہ سے مدینہ کی مسجد نبوی میں سکیورٹی کی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔
ریم نے کہا ’یہ خواتین کا دور ہے، خواتین ،ملٹری سمیت دیگر شعبوں میں کام کر سکتی ہیں جہاں وہ ہمیشہ سے کام کرنے کی خواہشمند تھیں۔‘
تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان دونوں مقدس مقامات پر خواتین افسران کی تعیناتی ان نمایاں تبدیلوں میں سے ایک ہے جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اپریل 2016 میں ویژن 2030 کی لانچ کے بعد رونما ہوئی ہیں۔
خواتین کی بااختیاری، معیشت میں ان کا کردار اور روزگار کے مواقع، سعودی ویژن کے بنیادی مقاصد کا حصہ ہیں۔
باقاعدہ حکمت عملی کے تحت سعودی عرب نے نہ صرف قانونی اصلاحات متعارف کروائی ہیں بلکہ متعدد شعبوں میں ایسے پراجکٹس کی فنڈنگ بھی کی ہے جن میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔
علاوہ ازیں سرکاری ادارے خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وزارت برائے ہیومن ریسورسز اور سوشل ڈویلپمنٹ صنفی امتیاز کو کم کرنے اور دفاتر میں محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
سعودی خواتین نے قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کے علاوہ کاروبار شروع کیے اور نجی شعبے میں سرمایہ کاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سعودی عرب میں اب خواتین ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، پہلی خاتون ریسنگ ڈرائیور سے لے کر خواتین سفارتکار اور ججز کے علاوہ فلم انڈسٹری میں بھی خواتین اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
بالخصوص شعبہ دفاع میں صنفی مساوات کی جانب پیش قدمی متاثر کن ہے۔ تین سال قبل سعودی عرب نے فیصلہ کیا تھا کی خواتین کو بھی فوج میں شامل ہونے کی اجازت ہوگی۔
سنہ 2020 میں سعودی فوج میں خواتین کے لیے پہلا ملٹری ونگ لانچ کیا گیا تھا۔ رواں سال فروری میں وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ مرد و خواتین ویب پورٹل کے ذریعے ملٹری پوزیشنز کے لیے درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔
سعودی فوج میں خواتین لانس کورپورل، کورپورل، سارجنٹ اور سٹاف سارجنٹ کے عہدوں پر فائض ہو سکتی ہیں۔ سعودی بری، بحری، فضائی، ڈیفنس، سٹریٹیجک میزائل فورس اور میڈیکل سروس میں خواتین مختلف عہدوں پر تعینات ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ سال کورونا کی عالمی وبا کے دوران حج سیزن میں پہلی مرتبہ خواتین پولیس افسران کو مکہ کی سکیورٹی فورس کا حصہ بنایا تھا۔
29 سالہ خاتون سکیورٹی اہلکار الہنوف الگومزی کا کہنا ہے کہ مسجد نبوی میں فرائض سرانجام دینے کا احساس ہی ناقابل بیان ہے۔
’میں مسجد نبوی میں موجود ہوں اور یہاں آنے والے زائرین پر نظر رکھتی ہوں، مجھے اپنے اور ساتھی اہلکاروں پر بہت زیادہ فخر ہے۔‘
الہنوف الگومزی نے اپنی ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ دہراتے ہوئے بتایا کہ ’ایک پچاس سالہ خاتون مسجد نبوی میں بیہوش ہو گئیں، میں نے فوراً ایمبولنس بلائی اور خاتون کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی گئی۔‘
الہنوف الگومزی کا کہنا تھا کہ سعودی فوج میں کام کرنا ان کے لیے انتہائی باعث فخر ہے۔
موجودہ سعودی عرب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے الہنوف نے کہا کہ اب اکثر شعبوں میں خواتین نظر آتی ہیں، یہ مردوں کے برابر ہیں۔