جدہ 'البلد' کے کافی شاپ میں ماضی اور مستقبل کی نمایاں جھلک
جب میں کہیں سفر پر ہوتا ہوں تو یہاں کی ہر چیز مجھے یاد آتی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
دنیا بھر میں وراثتی علاقوں کو ماضی اور مستقبل کی ملاقات کے مقامات کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جدہ شہر کا قدیم تاریخی علاقہ 'البلد' اس سے مختلف نہیں کیونکہ یہاں کے رہائشی ایک کافی شاپ پر ماضی اور مستقبل کی مشترکہ قدریں تلاش کرلیتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جدہ شہر میں واقع ڈاون ٹاون جسے مقامی لوگ 'البلد' کے نام سے جانتے ہیں، یہاں ایسے متعدد مکانات موجود ہیں جو 200 سے300 سال قدیم ہیں۔
جدہ میں کئی برسوں کے دوران کی گئی توسیع ، جدت و ترقی کے بعد بھی رہائشی اپنے ہمسایوں، دوستوں اور اجنبیوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ وہ البلد سمیت شہر کےکئی علاقوں میں موجود کافی ہاوسز میں بیٹھے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق 28 سالہ بکر سویلم با زہیر یہاں لیالی تاریخیہ نامی کیفے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کافی پینے میں مصروف تھے۔
انہوں نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم یہاں اپنے بڑوں کے ساتھ بچوں کی حیثیت سے آتے تھے، اب ہم خود ہی یہاں آتے ہیں اور میں مستقبل میں اپنی اولاد کے ساتھ یہاں آنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
بکر سویلم نے بتایا کہ ہم نوجوان ہر سال خاص دنوں میں البلد آتے ہیں تا کہ اس علاقے کی خوبصورتی سے محظوظ ہو سکیں۔
گو کہ ہم جدت کی جانب گامزن ہیں مگر پھر بھی ہم اس کی کمی محسوس کرتے ہیں لہٰذا وقتاً فوقتاً ہم اپنے ماضی کی یادیں تازہ کرنے یہاں آتے ہیں۔
کیفے لیالی تاریخیہ اصل میں ایک مکان تھا جس کی تزئین و آرائش اس وقت کی گئی جب اس کے موجودہ مالک طلال شلبی نے اس کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے اسے کیفے میں تبدیل کردیا۔
طلال شلبی نوادرات جمع کرنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیفے میں ایسی 450 اشیا نمائش کے لئے رکھی ہیں جو ان کے پاس جمع شدہ ہیں۔
شلبی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کا قدیم اشیا کا ذخیرہ اور کافی ایک ایسا ملاپ ہے جس میں لوگ دلچسپی لیتے ہیں اور کیفے میں دوبارہ آنے کی خواہش کرتے ہیں۔
ان میں سے پچاس فیصد چیزیں ایسی ہیں جو انتہائی نادر ہیں۔ مجھے اس جگہ سے بے حد محبت ہے۔ جب میں کہیں سفر پر ہوتا ہوں تو یہاں کی ہر چیز مجھے یاد آتی ہے اورجب میں یہاں ہوتا ہوں تو ہر روز کیفے آتا ہوں۔
شلبی کو یہ دیکھ کربہت خوشی ہوتی ہے کہ نوجوان کیفے میں آتے ہیں اور یہاں موجود شاندار روایت پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے بلد لوگوں سے پوشیدہ تھا۔ اب بلدیہ کی کوششوں کے باعث یہ ممکن ہوا ہے کہ 25 سے 35 سال کی عمر کے سعودی شہری یہاں آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ پہلی مرتبہ اس علاقے میں آئے ہیں۔
شلبی نے کہا کہ انہوں نے کیفے کھولنے کے بعد پہلے سال تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تاہم ثقافتی پروگراموں اور سیاحتی ویزوں نے اس مقام کی مقبولیت میں مدد فراہم کی۔
بدقسمتی سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث کاروبار متاثر ہواہے۔ کووڈ19 سے پہلے پورا علاقہ ایک کھلے عجائب گھر جیسا محسوس ہوتا تھا جہاں ہر چیز روایتی اور قدیم تھی۔
کیفے میں کام کرنے والی 28 سالہ یمنی عروہ احمد سیف نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جدہ میں گزارا ہے۔
انہوں نے کہا کہ البلد کی اصل ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ البلد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور میرے لئے یہ بات انتہائی قابل حیرت ہے۔
یہ تاریخی علاقہ اپنے کیفے، دکانوں اور نمائشوں کے باعث نوجوان نسل میں مقبول ہورہا ہے۔ یہ نسل علاقے کی بھرپور روایات سے محظوظ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں موجود دیگر کافی شاپس مثلاًکیفے مقاد ، اہل البد ،حکایہ، مرکز الشام اور کیچ بھی عوام کو اپنی جانب توجہ دلاتی ہیں۔
یہاں موجود 23 سالہ آمنہ عبد اللہ نے بتایا کہ البلد زندگی سے بھر پور ہے۔ یہاں ہر موسم منایا جاتا ہے۔ ماحول بہت دوستانہ ہے اور مجھے یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔
اٹھارہ سالہ امیرہ نسیم کافی پینے اور گلیوں میں گھوم پھر کر تحقیق کرنے کے لئے روزانہ البلدآتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں کافی شاپس کے بارے میں جاننا پسند کرتی ہوں۔ مجھے ایسی جگہیں پسند ہیں جن میں کوئی نہ کوئی کہانی ہو اور البلد کہانیوں سے بھرپور علاقہ ہے۔
شہر کے تاریخی مقام کی بحالی نے ان لوگوں میں بحث چھیڑ دی ہے جو اس شہر کو عزیز رکھتے ہیں۔
بکر بازہیر نےبتایا کہ البلد منظم سے منظم ترہوتا جارہا ہے۔ خاص طور پر گذشتہ کچھ سالوں سے یہاں کافی تبدیلی آئی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھی تبدیلی ہے کیونکہ اس طرح ہمیں ایک نئی روشنی میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
فوٹوز بشکریہ عرب نیوز، ٹوئٹر۔