کورونا کی ابتدا کیسے ہوئی، امریکہ کا نئی ’شفاف‘ تحقیقات کا مطالبہ
زاویر بیسیرا کا کہنا تھا کہ ’کورونا وائرس کی ابتدا کے حوالے سے دوسرے مرحلے میں ایسی شرائط ہونی چاہیں جو شفاف ہوں۔‘ (فوٹو روئٹرز)
امریکہ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ماہرین کو اجازت ہونی چاہیے کہ دوسرے مرحلے میں تحقیقات کر کے سراغ لگائیں کہ کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو عالمی ادارہ صحت میں وزرا کی سالانہ میٹنگ میں ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے امریکی وزیر صحت زاویر بیسیرا کا کہنا تھا کہ ’کورونا وائرس کی ابتدا کے حوالے سے دوسرے مرحلے میں ایسی شرائط ہونی چاہیں جو شفاف ہوں، سائنسی بنیادوں پر ہوں اور بین الاقوامی ماہرین کو اجازت ہو کہ وہ آزادی سے وائرس کی ابتدا کے مقام اور وبا کی ابتدائی دنوں کا جائزہ لے سکیں۔‘
امریکی حکومت کے ذرائع کے مطابق ’امریکی خفیہ ادارے ایسی رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہیں جن کے تحت کہا گیا کہ چینی وائرولوجی لیب میں کام کرنے والے ریسرچرز 2019 میں کورونا کا پہلا کیس رپورٹ ہونے سے ایک ماہ پہلے شدید بیمار ہوگئے تھے۔‘
تاہم پیر کو ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ’ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ثابت ہوکہ یہ بیماری لیبارٹری سے پھیلی۔‘
زاویر بیسیرا نے براہ راست چین کا ذکر نہیں کیا جس کے شہر ووہان میں دسمبر 2019 کو کورونا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا۔
کورونا کی ابتدا کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ مارچ میں چینی سائنسدانوں اور عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کی مشترکہ رپورٹ جاری ہوئی جس کی تیاری میں ووہان کے اندر اور باہر چار ہفتے کا وقت لگا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ غالباً وائرس کسی جانور سے چمگادڑوں اور انسانوں کو لگا اور کہا گیا کہ ’اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ اس کی ابتدا لیبارٹری سے ہوئی۔‘
عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جیساروک نے پیر کو روئٹرز کو بتایا کہ ’ٹیکنیکل ٹیم وبا کی ابتدا کا جائزہ لینے کے لیے تجویز تیار کرے گی اور اسے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ایڈہانوم کو پیش کرے گی۔‘