انتصار الحمادی کو رواں سال 20 فروری کو صنعا میں دو دوستوں کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
حوثیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والی یمنی ماڈل نے جیل میں آنے والے ملاقاتیوں کے ایک گروپ کو بتایا ہے کہ ملیشیا نے آزادی کے عوض انہیں ’بطور جاسوس بھرتی کرنے کی کوشش کی۔‘
عرب نیوز کے مطابق انتصار الحمادی اور ان کے دو ساتھیوں کو حوثیوں نے صنعا میں 20 فروری کو اغوا کیا تھا۔ مرکزی جیل منتقل کرنے سے پہلے انہوں نے صنعا کے کریمینل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ میں دس دن گزارے تھے۔
پیر کو یمنی ماڈل انتصار الحمادی کے ساتھ ملاقات کرنے والے ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’حوثیوں نے یمنی ماڈل اور ان کی دو خواتین ساتھیوں کو جاسوس بھرتی کرنے کی کوشش تاکہ وہ خفیہ آپریشنز میں حصہ لیں اور جلد سے جلد رہائی کے بدلے مخالفین کے گھروں میں سننے والے آلات نصب کریں۔‘
جیل آنے والوں کو یمنی ماڈل نے بتایا کہ ’انکار کرنے پر ان کو جیل میں پھینکا گیا اور انہوں نے ان کے وکیل اور رشتہ داروں کے ملنے پر بھی پابندی لگائی جبکہ ان کو آزاد کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی دباؤ کی بھی مزاحمت کی۔‘
پیر کو ملاقات کرنے والے اس گروپ میں کارکن، سیاستدان، وکلا، صحافی اور حوثیوں کے تحت چلنے والی شورا کونسل اور پارلیمان کے اراکین شامل تھے۔
عبدالوہاب قطران جو ایک جج ہیں، وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے یمنی ماڈل سے ملاقات کی، ان کی فیس بک پوسٹ کے مطابق ماڈل انتصار الحمادی نے انہیں بتایا کہ ان کو حوثیوں نے منشیات رکھنے اور جسم فروشی کے الزامات کے تحت جیل میں رکھا ہے۔
ایک مقامی پراسیکیوٹر جنہوں نے ماڈل سے پوچھ گچھ کی، ان پر عائد الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور ان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
جج عبدالوہاب قطران نے لکھا کہ ’حوثیوں نے یمنی ماڈل کی آنکھوں پر پٹی باندھی، ایک نامعلوم فائل پر اس کے فنگر پرنٹس لیے اور اس کو جسم فروشی کے اڈے میں ڈال دیا۔‘
جیل جانے والے اراکین کا کہنا ہے کہ وہ حوثی باغیوں پر اس وقت تک دباؤ ڈالیں گے جب تک ان تین خواتین کو رہا نہیں کیا جاتا۔