حوثیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والی ماڈل انتصار الحمادی کون ہیں؟
انتصار الحمادی دو مقامی ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کر چکی ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
یمن کے دارالحکومت صنعا کے رہائشیوں اور مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے مشہور یمنی ماڈل اور اداکارہ انتصار الحمادی کو دو اور فیشن ڈیزائنرز کے ساتھ اغوا کر لیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق حوثیوں کے زیر اثرعلاقوں میں باغیوں کے مخالفین اور آزاد خیال خواتین پر حملوں کے سلسلے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
اس واقعے کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ملک شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں اور کارکنوں نے انتصار الحمادی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کے والد یمنی اور ماں ایتھوپیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک قدامت پسند معاشرے میں پلے بڑھنے کے باوجود اپنے سپر ماڈل بننے کے عزم پر عمل پیرا رہیں۔
انتصار الحمادی بچپن میں گھر میں اپنی والدہ کے کپڑے پہن کر ٹی وی پر آنے والی مشہور ماڈلز کی نقل کرتی تھیں۔
اس حوالے سے انہوں نے گذشتہ سال بلقیس ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میرے والدین نے مجھے کہا کہ میرا ماڈل بننے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا یہ میرا خواب ہے اور میں اس کا پیچھا کروں گی۔‘
صنعا میں مقیم انتصار الحمادی کو جو اگلے سال کالج میں داخلے کا منصوبہ بنا رہی تھی، اس وقت شہرت ملی جب ان کے ایک دوست نے جو پروفیشنل فوٹوگرافر تھا، ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔ ان تصاویر میں انہوں نے حجاب کے ساتھ یمنی ملبوسات زیب تن کیے یوئے تھے۔
ان کی مقبولیت نے انہیں بغیر حجاب کے تصاویر اتروانے پر مجبور کر دیا جس پر انہیں قدامت پسندوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اس تنقید کے حوالے سے انہیوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں جب سے اس پیشے سے محبت کرتی ہوں میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتی۔‘
انتصار الحمادی تب سے بطور ماڈل ہی کام کر رہی تھیں اور انہوں نے دو ڈراموں میں کام بھی کیا۔
انہوں نے سیاہ رنگت کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوئے نسلی امتیازی کے خلاف آواز بھی اٹھائی لیکن وہ اپنے کیریئر کو آگے بڑھانا چاہتی تھیں اور عالمی کیٹ واکس میں بطور ماڈل کام کرنا چاہتی تھیں۔