حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاہدے کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بالآخر چوتھے روز تقریر کرنے میں کامیاب ہو گئے اس سے قبل وہ جب بجٹ پر خیالات کا اظہار کرنے کے لیے کھڑے ہوتے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان نعروں اور شور شرابے کا مقابلہ شروع ہو جاتا۔
شہباز شریف نے حکومتی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب عوام کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے۔‘
انہوں نے بجٹ کی کاپی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام پوچھ رہے ہیں کہ اس میں ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں؟ پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں؟
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ شنید ہے کہ مزید انکم ٹیکس لگایا جا رہا ہے، بقول ان کے ’جب انکم ہے ہی نہیں تو ٹیکس کا کلہاڑا کیوں چلایا جا رہا ہے، حکومت عوام سے مزید کہا حاصل کرنا چاہتی ہے‘
انہوں نے اپنے دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ریکارڈ ترقی ہوئی، ان کے مطابق ’اگر حکومت ہمارے دور کے طریقہ کار کو فالو کرتی تو آج ملک بہت آگے ہوتا۔‘
شہباز شریف حکومت کے لنگر خانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت وہاں سے غریبوں کو نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرے۔
انہوں نے ایوان میں وزیراعظم کی عدم موجودگی پر ان کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہر اہم موقع پر یہ نشست خالی ہوتی۔
’ملک ایسے نہیں چلتے، ان کا کام ہے کہ وہ ہاؤس کو اعتماد میں لیں۔‘
قبل ازیں اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر دفاع پرویز خٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن معاہدے پر پہنچ گئی ہے، فیصلہ ہوا ہے کہ ’اجلاس احسن طریقے سے چلایا جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ دونوں طرف سے یہ ہمارے ملک اور آئین کے لیے اچھا رویہ نہیں تھا۔ میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہماری آج اپوزیشن سے ملاقات ہوئی ہے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل بنا ہے جس کا اعلان سپیکر اسد قیصر اسمبلی میں کریں گے۔
مزید پڑھیں
-
ارکان اسمبلی کے ایوان میں داخلے پر پابندی، کب اور کون نشانہ بنا؟Node ID: 574731
دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے حکومتی دعوے کے حوالے سے ابھی تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت برداشت کیا، سب نے برداشت کیا اور اس کے بعد بھی دو دن تک یہی حال رہا، جو ہمارے ملک اور آئین کے لیے اچھا رویہ نہیں ہے۔ بقول ان کے وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق اسمبلی کو چلایا جائے اور اچھا ماحول رکھیں۔
بجٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، ’ہم چاہتے ہیں اس پر بحث ہو اور اچھے طریقے سے ہو۔‘
پرویز خٹک کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن بے شک مخالفت یا تنقید کرتی رہے تاہم ہمارا کام ہے کہ ہم نے جو کیا ہے وہ سامنے لائیں۔
’فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسمبلی کو بہتر انداز میں چلایا جائے، ایک دوسرے کی عزت کرنی ہے اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے کمیٹی بھی بنائی جا رہی ہے جس میں سپیکر کے اختیارات کو بڑھائے جانے پر بھی کام ہو گا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس میں پارلیمان کی سبکی ہوئی ہے اور سیاست دانوں کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ سپیکر کے اختیارات کو کس طرح بڑھانا ہے۔
انہوں نے اپوزیشن سے اپیل بھی کی کہ وہ سپیکر اسمبلی کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد لے اور امید ظاہر کی ایسا ہو جائے گا۔