پاکستان تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے گزشتہ دو روز سے قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم قطعی طور پر اس صورت حال میں فریق نہیں بنے گی۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وفاقی کابینہ میں ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے کہا کہ ’ہم نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ بات اپنے بڑے اتحادی کو بتائی ہے کہ کسی بھی صورت میں ایم کیو ایم گزشتہ دو تین دن سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس میں فریق نہیں بنے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم پاکستان سمجھتی ہے کہ ان عوامل سے تین چیزوں کے لیے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے پہلا پارلیمنٹرینز، دوسرا جمہوریت اور تیسرا انفرادی شخص بھی خطرے میں آ جاتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
قومی اسمبلی میں بدترین کارروائی، گالم گلوچ، کتابیں پھینکی گئیںNode ID: 574411
-
جب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ڈپٹی سپیکر کی جان لے گئیNode ID: 574461
-
سارجنٹ گول کیپر کی طرح اُچھل کر بجٹ کی کتابیں کیچ کر رہے تھےNode ID: 574486
’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے مناسب عمل ہوگا کہ ہم اچھا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے باوقار طریقے سے اپنی پارلیمنٹ کو چلائیں اور اس کی ذمہ داری اپوزیشن کی بھی اتنی ہی بنتی جتنی حکومت کی بنتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیشہ حکومت میں جب آپ ہوتے ہیں تو حکومت آپ کے پاس ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس کیونکہ حکومت نہیں ہوتی تو وہ تقریر تحریر یا پھر مذمتی بیان جاری کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کا حق بھی ہے۔ جتنے بھی اراکان پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی ہیں وہ ہزاروں لاکھوں ووٹ لے کر منتخب ہوکر آتے ہیں۔ ان پر بھاری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اخلاقی حدود میں رہ کر اپنے عمل سے دوسروں کو متاثر کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی ایسے ہیں جو رول ماڈل کے طور پر موجود ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ اسمبلی کے آغاز سے لے کر اب تک قائد ایوان کو اچھے انداز سے تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ ہر وقت احتجاج چلتا رہتا ہے۔ احتجاج اور شور شرابے کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اب جو گالم گلوچ ، جسمانی تشدد اور مار کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی ورکنگ ریلیشن شپ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’جب کابینہ نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی تھی تو ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج کیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نے ایک وفد کراچی ایم کیو ایم کے مرکز بھیجا تھا۔ اس ملاقات میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا کہ اگلے پانچ سال میں مردم شماری کرائی جائے گی۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ 2017 میں مردم شماری ہوئی تھی تو اب 2022 میں کی جائے گی۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ہر صورت میں بجٹ میں مردم شماری کے انعقاد کے لیے پیسے رکھے جائیں گے۔ اب پانچ ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ 14 مہینے کا ٹائم فریم رکھا گیا ہے اور اگلے چند مہینے میں اس پر کام شروع ہو جائے گا۔ 2023 کے الیکشن سے پہلے مردم شماری کا انعقاد ہو چکا ہوگا اور 2023 کا الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا۔‘
سید امین الحق نے کہا کہ ’ہماری خواہش تھی کہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے لیکن جو اضافہ ہوا ہے وہ نہ ہونے سے تو بہتر ہے کیونکہ تحریک انصاف نے گزشتہ بجٹ میں بھی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’حکومت کے سامنے مختلف مذہبی اور سیاسی تحریکوں اور احتجاج کے سامنے کئی بار بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوئی، لیکن اب نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہی ہے۔ بڑا مسئلہ مہنگائی جس پر قابو پانے کے لیے گورننس میں بہتری، میرٹ پر فیصلے کرتے ہوئے نظام میں شفافیت لائی جائے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/June/36481/2021/e37sd6gvgaqhtgg.jpg)