قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عطا اللہ اور سپیشل سیکرٹری داخلہ شیر عالم محسود کے درمیان وزارت کی کارکردگی پر شدید تلخ کلامی ہوئی اور ایک موقع پر حکمران جماعت کے ایم این اے نے سینیئر بیوروکریٹ کو شٹ اپ بھی کہہ دیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے سینیئر صحافیوں کے علاوہ سپیشل سیکرٹری داخلہ، ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد افضال احمد کوثر اور وزرات داخلہ اور انسانی حقوق کے سینیئر حکام بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں
-
خواتین صحافیوں پر جو بیتی اسے سن کر قائمہ کمیٹی سکتے میںNode ID: 499611
-
صحافیوں پر مقدمات کی خبر درست نہیں: شیریں مزاریNode ID: 507211
-
حامد میر جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک سے الگNode ID: 569956
بریفنگ کے دوران جب سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کمیٹی کو بتایا کہ ’گذشتہ دو ماہ سے پولیس ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے ملزموں کا سراغ نہیں لگا سکی‘ تو ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ ’پولیس کے پاس چہرے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج نادرا کو دی گئی ہے اور ابھی تک اس کی رپورٹ نہیں آئی۔‘
بلاول بھٹو نے اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ معاملہ کل ہی ان کے نوٹس میں آیا ہے۔ وہ جمعے کو دوبارہ نادرا سے پتا کر کے کمیٹی کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔‘
اس پر تحریک انصاف کے ایم این اے عطا اللہ نے کہا کہ ’وزارت داخلہ کام ہی نہیں کرتی، کمیٹی چیئرمین ان کو پابند کریں ورنہ یہ کبھی رپورٹ نہیں دیں گے۔‘
اس بات پر سپیشل سیکرٹری داخلہ شیر عالم محسود غصے میں باآواز بلند بولے ’ایسا نہیں ہے ہم بہت کام کرتے ہیں۔‘ ان کے اس جواب پر عطا اللہ بھی شدید غصے میں آ گئے اور کہا کہ ’سیکرٹری کی جرات کیسے ہوئی ان سے اس لہجے میں بات کرنے کی۔ ساتھ ہی ان کو شٹ اپ بھی کہہ دیا۔‘

بلاول بھٹو نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر رکن قومی اسمبلی اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور اجلاس کا بائیکاٹ کر کے جانے لگے تو انہیں محسن داوڑ نے روک لیا اور بلاول بھٹو نے بھی انہیں بیٹھنے کی درخواست کی۔
اس کے بعد بلاول بھٹو نے سپیشل سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ ’وزارت دو ماہ سے ابصار عالم پر حملہ کرنے والے ملزمان کی شناخت نہیں کر سکی حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزارت داخلہ کے پاس صرف اسلام آباد کی ذمہ داری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر اسلام آباد میں حملے پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے کیونکہ دنیا بھر کے سفارت خانے بھی اسی شہر میں موجود ہیں۔‘
کمیٹی میں اینکر پرسن حامد میر، عاصمہ شیرازی اور صحافی اسد طور کے علاوہ دیگر صحافیوں نے اپنے خلاف کیسز اور اپنے اوپر حالیہ حملوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔
