Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان کے مسئلے کے عسکری حل کی مخالفت کریں گے: عمران خان

پاکستانی وزیراعظم کے مطابق طالبان پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان میں فوجی ٹیک اوور کی مخالفت کرے گا اور طالبان پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک مضمون میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ سے شراکت کے لیے تیار ہے لیکن مزید کسی تنازعے سے دور رہے گا۔

 

عرب نیوز کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کے یہ خیالات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات میں پیشرفت نہایت سست روی کا شکار ہے اور گیارہ ستمبر کو امریکی فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات ایک ہیں، افغانستان میں سیاسی حل اور استحکام، معاشی ترقی اور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا راستہ روکنا۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’ہم افغانستان میں کسی بھی فوجی ٹیک اوور کی مخالفت کرتے ہیں جو دہائی پر محیط خانہ جنگی کی طرف جائے گا، چونکہ طالبان پورے ملک پر قبضہ نہیں کر سکتے، اور ان کو کسی بھی حکومت کی کامیابی کے لیے اس میں شامل کیا جائے۔‘ 
عمران خان کے مطابق ’ماضی میں پاکستان نے افغانستان کے متحارب دھڑوں میں سے انتخاب کر کے غلطی کی لیکن اس تجربے سے سیکھا ہے۔ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور کسی بھی ایسی افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے جس کو افغانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کو باہر سے کبھی کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔‘
پاکستان کے وزیراعظم نے لکھا کہ ان کے ملک نے بھی افغانستان میں جنگوں کا نقصان اٹھایا اور 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان گئی جبکہ ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ 

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عمران خان کے مطابق افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کو بھی نشانہ بنایا گیا اور تحریک طالبان پاکستان و دیگر تنظمیوں نے حملے کیے۔ 
’میں برسوں سے کہتا آ رہا ہوں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں، امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا جس کے باعث پہلی مرتبہ پاکستانی افواج افغانستان کی سرحد کے ساتھ نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں اس غلط توقع کے ساتھ بھیجی گئیں کہ اس سے شورش کا خاتمہ ہوگا۔‘
پاکستان کے وزیراعظم نے لکھا کہ ’ایسا نہ ہوا، لیکن اس سے قبائلی علاقوں کی آدھی آبادی بے گھر ہوئی، صرف جنوبی وزیرستان میں دس لاکھ افراد نے گھر چھوڑا، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، پورے پورے گاؤں تباہ ہو گئے۔‘

شیئر: