ریاض شہر سرسبز رہائش گاہ کے طور پر بہت جلد ابھرے گا
ریاض شہر سرسبز رہائش گاہ کے طور پر بہت جلد ابھرے گا
جمعرات 1 جولائی 2021 16:53
گرین ریاض منصوبے میں 80 ارب ریال کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
'گرین ریاض' نے زیادہ پائدار مستقبل کی عالمی کوششوں میں سعودی عرب کے کردار کو سب سے زیادہ واضح طور پرپیش کیا ہے جو سعودی” گرین انیشی ایٹو“ کا مرکزی نقطہ ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق کسی بھی بڑے شہر میں ہریالی کا سب سے کم فی کس تناسب ہونے کے باوجودسعودی دارالحکومت جلد ہی ایک سرسبز شہری رہائش گاہ کے طور پر ابھرے گا۔
سرکاری بیانات میں کہا گیا ہے کہ ریاض کی ' ہریالی' سے اس کے شہریوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔ شہر کو ایک پرکشش منزل میں تبدیل کیا جائے گا اور اسے دنیا کا سب سے زیادہ قابل رہائش شہر بنایا جائے گا۔
ریاض عربی میں 'باغ' کو کہتے ہیں۔ چودھویں صدی میں اس شہر کو ' حجر' کہا جاتا تھا تاہم مشہور مراکشی مسافر ابن بطوطہ نے 'نہروں اور درختوں کے شہر' کے طور پر اس کی منظر کشی کی تھی۔
آج ہم جانتے ہیں کہ ریاض 18 ویں صدی کے وسط میں اس وقت ابھرا جب مقامی حکمران دہام ابن دواس نے مٹی اور واٹل مکانات اور تنگ گلیوں کے گرد ایک مربع کلومیٹرکی دیوار بنائی۔
اس کے بعد جب شاہ عبد العزیزآل سعود نے 1932 میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، اس وقت بھی ریاض کا یہ قدیم روایتی مظہر موجود تھا۔
1950 کی دہائی تک مکہ مکرمہ سعودی عرب کا مرکزی مقام اور اس کی حکومت کا مرکز تھا۔ ریاض کو ایک جدید اور مربوط ملک کا دارالحکومت بنانے کا تصور کرتے ہوئے شاہ سعود نے اپنی پوری حکومت کو ریاض منتقل کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔
اس کے ہمسائے میں واقع ملز کا نیا محلہ جدید مکانات ، تجارتی اور تعلیمی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی وزارتوں پر مشتمل تھا۔
1960-70 کی دہائی میں تیل کے شعبے کی ترقی کے باعث ریاض کا 'کاروں پر مبنی شہر' کی حیثیت سے تصورتیزی سے فروغ پا رہا تھا۔
شاہ فیصل نے یونانی شہری منصوبہ ساز کو ایک 'سپرگرڈ' کے ڈیزائن کی نگرانی کے لئے مدعو کیا۔
ایک جدید شہر کو حقیقت کا روپ دینے میں بہرحال کچھ وقت لگا اور گرڈ کے ذریعہ تیار کردہ بہت بڑی خالی جگہیں آہستہ آہستہ بھر گئیں۔ یہ ایسا عمل ہے جو آج تک جاری ہے۔
کار پر مبنی ابھرتی ہوئی میٹروپولس میں پختہ راستوں اور اوورہیڈ پلوں کی کمی، پیدل چلنے والوں کے لئے ایک چیلنج ثابت ہوئی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے بہت کم آپشنز کے باعث ریاض ایک ایسا مقام بن گیا جہاں کار کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔
1990 کی دہائی میں ریاض کی تیز رفتار نشوونما کے لئے مکمل نئی جہت متعارف ہوئی۔ فیصلیہ سنٹرتعمیر ہوا جو حقیقی معنوں میں شہر کا پہلا 'سکائی سکریپر' تھا۔
1994 میں برطانیہ کے فوسٹر اینڈ پارٹنرز کی جانب سے ڈیزائن کئے گئے اس کمپلیکس کی رونمائی چھ سال بعدہوئی۔ اپنے غیر معمولی بیرونی سپراسٹرکچر اورنوکیلی چوٹی والی اس عمارت میں 30فلورزدفاتر کے لئے ہیں۔ تین منزلہ مال ، گلوب کے سائز والے ریستوراں اورآبزرویشن ڈیک موجود ہیں جہاں سے شہر کے ارد گرد کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
فیصلیہ سینٹر کے بعد 2002 میں کنگڈم سینٹر بنایاگیا ۔ یہ2 ارب ریال( 533.33 ملین ڈالر) کا تاریخی منصوبہ تھا۔ اس نے2002 کا 'ایمپورس سکائی سکریپر ایوارڈ' جیتا۔
اس99 منزلہ عمارت کا ڈیزائن فیصلیہ سنٹر کے مقابلے میں زیادہ منظم اور خوبصورت ہے ۔ 'سکائی برج واک وے' اس کی ایک منفرد خصوصیت ہے۔
ریاض کی اگلی بڑی ترقی کنگ عبد اللہ فنانشل سٹی تھی۔ یہ ایک علاقائی بینکنگ اور فنانس ہب ہے۔ بلند و بالا ٹاورز کے اس جھرمٹ نے سکائی لائن کو یکسر بدل دیا ہے۔
2005 تک ریاض ایک عالمی شہر کی حیثیت سے اپنی جگہ لے رہا تھا لیکن پھر ریاض کی ڈرامائی طور پرطبعی تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔
سمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی بالادستی کے ساتھ ، سعودی دارالحکومت تیزی سے ایک سمارٹ سٹی کے طور پر جانا جانے لگا ، جہاں ہر شہری کو7 دن اور24گھنٹے آن لائن مکمل خدمات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
لوزانے میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ڈیولپمنٹ کے2020 سمارٹ سٹی انڈیکس میں ریاض کو'صحت کی دیکھ بھال، نقل و حرکت، تفریحی سرگرمیوں اورگورننس سے ڈیجیٹل رابطے کے حوالے سے ٹوکیو ، روم ، پیرس اور بیجنگ سے آگے رکھا گیاہے۔
ریاض جس طرح ایک ہائی ٹیک عالمی شہر کے طور پر ابھرا ہے ، اسی طرح اس کے قدیم ثقافتی ورثے کی تعریف میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
جدیدیت اور تیزی سے وسعت کے تناظرمیں ریاض کی زیادہ تر پرانی عمارتیں مسمار کر دی گئی ہیں۔ اب ریاض کے حق میں 'ثقافت کا شہر' کے طور پرلوگوں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔
ریاض میں شاہ عبدالعزیز تاریخی مرکز ، شاہی سعودی فضائیہ میوزیم اور ق’عہ المسمق قلعے سمیت اچھے انداز سے تیار شدہ میوزیم موجود ہے۔
الدرعیہ کی پرانی شاہی نشست کو'درعیہ گیٹ' کے نام سے دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ سات دہائیوں کی تیز تر شہری ترقی نے یہ حقیقت تسلیم کرائی ہے کہ اس عمل میں کچھ غلطیاں کی گئیں۔ قدرتی خوبصورتی اور عوامی مقامات پر کما حقہ دھیان نہیں دیا گیا۔
ریاض میں کچھ پارک قائم کئے گئے ہیں۔ ملز ایریا میں کنگ عبداللہ پارک اپنے فوارے کے باعث خاص طور پر مشہور ہے لیکن یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس شہر میں ہریالی کی قلت ہے۔
وژن 2030 کے کلیدی عنصر کی حیثیت سے یہ سب بدلنے والا ہے حکومت اپنے ماحول، انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تفریحی اور کھیلوں کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لئے گرین ریاض منصوبے میں 80 ارب ریال سے کم کی سرمایہ کاری نہیں کر رہی۔
شاہ سلمان پارک کے نام سے وسیع کنگ عبدالعزیز ایئربیس کو دوبارہ تشکیل دیا جارہا ہے۔ یہ لندن کے ہائیڈ پارک سے پانچ گنا بڑا ہے جس میں جھیلوں، کھیلوں کے مقامات، عجائب گھر، گیلریوں، سائیکلنگ کے راستوں اور یہاں تک کہ ایک اوپیرا ہاوس شامل ہے۔
75لاکھ درخت لگانے کا منصوبہ بھی ہے۔ اس سپرگرڈ میں جلد ہی ایک مربوط میٹرو اور بس نیٹ ورک قائم کیا جائے گا جس سے شہر میں گاڑیوں پر انحصار کم ہوگا۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں