Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ریٹائرڈ افسران سرکاری گھر کیوں نہیں چھوڑتے؟

ہر سرکاری افسر کو گریڈ کے مطابق گھر الاٹ کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: پنجاب گورنمنٹ ہاؤسنگ سکیم)
پاکستان میں سرکاری افسران کو حکومتی رہائش گاہ دی جاتی ہے لیکن بعض اوقات صورتحال ایسی ہو جاتی ہے کہ ریٹائر ہونے والے افسران اپنی سرکاری رہائش گاہیں خالی نہیں کرتے اور کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ انہی گھروں میں رہتے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں سرکاری رہائش گاہیں فراہم کرنے والے محکمے ایس اینڈ جی اے ڈی کی ایک رپورٹ اردو نیوز نے حاصل کی ہے جس میں لاہور کی سرکاری رہائش گاہوں میں 70 ایسے ریٹائرڈ افسران کی نشاندہی کی گئی ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی رہائش اسی سرکاری گھر میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ 
ایڈیشنل سیکریٹری ویلفیئر آفس کے مطابق ’ریٹائرڈ افسران سے گھر خالی کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے گھر خالی نہ کرنے والوں کی فہرست چیف سیکریٹری کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔ اس سمری میں سپریم کورٹ کے حکم کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی ریٹائرڈ سرکاری افسر چھ ماہ سے زائد سرکاری گھر استعمال نہیں کر سکتا۔‘
خیال رہے کہ ایک روز قبل وفاقی کابینہ نے ریٹائرڈ ججوں اور بیوروکریٹس کا پروٹوکول ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور پنجاب میں ایک روز بعد ہی ریٹائرڈ افسران سے سرکاری گھر واپس لینے کی سمری بھجوائی گئی ہے۔ 
پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’قانون کے مطابق سرکاری رہائش گاہیں ریٹائر ہونے والے سرکاری افسران کے پاس ایک خاص مدت کے بعد نہیں رہ سکتیں۔ میرے خیال میں یہ اچھا فیصلہ ہے کہ جو لوگ اپنی مدت ملازمت پوری کر چکے اب وہ نئے آنے والوں کو موقع دیں۔‘

الاٹمنٹ کیسے ہوتی ہے؟

سرکاری طور پر ہر ملازم اور افسر سرکاری گھر کا حق دار ہے۔ اس لیے پنجاب میں سرکاری ملازمین کو گھروں کی الاٹمنٹ کے نظام کوپانچ درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ایس اینڈ جی اے ڈی کے رولز کے مطابق اے کیٹیگری کے گھر گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے افسران کو الاٹ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کیٹیگری بی اٹھارویں اور انیسویں گریڈ کے افسران کو دیے جاتے ہیں۔
کیٹیگری سی کے گھر بھی گریڈ 17 اور 18 جبکہ کیٹیگری ڈی کے گھر گریڈ 16 کے افراد کے حصے میں آتے ہیں اور اس سے نیچے کے تمام سرکاری افسران اور ملازمین کے لیے کیٹیگری ای رکھی گئی ہے۔ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کوئی بھی ریٹائرڈ سرکاری افسر چھ ماہ سے زائد سرکاری گھر استعمال نہیں کر سکتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایک افسر کے مطابق ’اس وقت ساڑھے تین ہزار افسران ایسے ہیں جنہوں نے گھروں کی الاٹمنٹ کی درخواست دی ہوئی ہے لیکن خالی گھر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی الاٹمنٹ نہیں ہو پا رہی۔‘
کیٹیگری اے کے گھر کشادہ اور بڑے ہیں جبکہ بی اس سے تھوڑے کم رقبے میں جبکہ سی کیٹیگری میں تین بیڈ روم کے گھر ہیں۔ ڈی دو دو بیڈ روم اور ای سنگل بیڈ کوارٹرز ہیں۔
سرکاری افسران اور ملازمین کی کالونیوں کو جی او آر کہا جاتا ہے یعنی گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنسز۔ جیسے جیسے افسران ترقی کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کی رہائش گاہوں کے معیار بھی تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ 

ریٹائرڈ افسران سرکاری گھروں پر کیسے قابض ہیں؟

ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایک اعلی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عام طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد چھ مہینے ہوتے ہیں، کسی بھی سرکاری افسر کو اتنا وقت دیا جاتا ہے کہ وہ گھر خالی کر دے لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ افسران سول عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ خدمت کی اب ان کے پاس اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ ایسے حکم امتناعی کافی لمبا عرصہ چلتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ان میں کچھ کمی آئی ہے لیکن اب بھی کئی حکم امتنائی موجود ہیں۔‘

سرکاری طور پر ہر ملازم اور افسر سرکاری گھر کا حق دار ہے۔ (فوٹو: گورنمنٹ ریئل سٹیٹ)

ایس اینڈ جی اے ڈی کے اعلی افسر کے بقول  کچھ افسران کے بچے بھی افسران بھرتی ہوجاتے ہیں تو ایک دو سال تو وہ حکم امتناعی پر چلاتے ہیں اس کے بعد وہ اپنے بچوں کی درخواست دے دیتے ہیں کہ ان کو گھر چاہیے تو یہی گھر ان کو الاٹ کر دیا جائے۔
’اب ایسے میں چونکہ محکمے کے پاس ایک سنیارٹی لسٹ ہوتی ہے اور ایسے کسی بھی نئے افسر کو فوری گھر ملنا مشکل ہوتا ہے تو یہ لوگ پھر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔
انہون نے بتایا کہ ’ایسے کئی حکم امتناعی موجود ہیں جن میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک ان کے بچے کی الاٹمنٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک ان سے گھر خالی نہ کروایا جائے تو ایسی کئی صورتوں میں محکمہ گھر خالی کروانے کی کارروائیاں نہیں کرتا۔

شیئر: