پاکستان میں 2019-2018 کے دوران سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی 4 ہزار اسامیاں کم ہو گئیں جبکہ 2 ہزار 811 اسامیاں خالی ہیں۔
خواتین افسران میں سے ایک فیصد سے بھی کم گریڈ 20 سے 22 تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے سرکاری، ملحقہ اور آئینی اداروں کے علاوہ خود مختار، نیم خود مختار اور کارپوریشنز میں کل اسامیوں کی تعداد 11 لاکھ، 78 ہزار 408 ہے۔ ان میں سے 9 لاکھ 80 ہزار 505 نشستوں پر تعیناتیاں کی جا چکی ہیں جبکہ ایک لاکھ 97 ہزار 903 نشستیں خالی ہیں۔
جاری ہونے والے اعداد و شمار کو دو کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی کیٹگری وفاقی حکومت کے تحت آنے والی وفاقی وزارتیں اور ان کے ملحقہ ادارے جبکہ دوسری کیٹگری میں خود مختار، نیم خود مختار اور کارپوریشنز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
ایوانکا پاکستانی خواتین کو بااختیار بنانے کی خواہش مندNode ID: 427231
-
’سرکاری ٹی وی نہ دیکھنے والے بھی ماہانہ سو روپے دیں گے‘Node ID: 454656
-
پیمرا، عمران سیریز اور دیگرNode ID: 454671
مجموعی طور پر دونوں کیٹگریز میں خواتین کی نشستوں کی تعداد 48 ہزار 368 ہے جن میں سے 2 ہزار 811 اسامیاں خالی ہیں۔
پہلی کیٹگری یعنی وفاقی اداروں میں خواتین سرکاری ملازمین کی اسامیوں کی تعداد 32 ہزار 334 سے کم ہو کر 27 ہزار 865 رہ گئی ہے۔ ایک سال کے دوران چار ہزار 620 اسامیاں کم ہوئیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق یہ نشستیں کم یا ختم نہیں ہوئیں بلکہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کا دفتر وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان منتقل ہوا ہے۔ اس میں موجود خواتین کی تعداد اب وفاقی سرکاری ملازمین میں شمار نہیں ہو گی۔ اسی وجہ سے وفاق میں خواتین کی اسامیوں میں کمی نظر آ رہی ہے۔
گریڈ 17 سے 22 میں مختلف پوسٹوں پر تعینات خواتین افسران کی تعداد 6 ہزار 36 ہے۔ تاہم ان میں زیادہ تر خواتین گریڈ 17 سے 19 کے درمیان ہی تعینات ہیں۔ گریڈ 20 سے 22 میں تعینات خواتین کی تعداد کل خواتین ملازمین کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
گریڈ 22 میں 13، گریڈ 21 میں 34، گریڈ 20 میں 130، گریڈ 19 میں 514، گریڈ 18 میں 1246 اور گریڈ 17 میں 4 ہزار 99 خواتین ملازمین تعینات ہیں۔
ڈومیسائل کے لحاظ سے وفاقی اداروں میں پنجاب 66.88 فیصد، سندھ 16 فیصد، خیبر پختونخوا 10.16 فیصد بلوچستان 3.24 فیصد جبکہ کشمیر گلگت بلتستان اور سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد 3.71 فیصد ہے۔
دوسری کیٹگری خود مختار، نیم خود مختار اور کارپوریشنز کی ہے جن کی تعداد 206 ہے۔ خواتین ملازمین کی تعداد 20 ہزار 503 جبکہ اس سے پچھلے سال یہ تعداد 20 ہزار 84 تھی۔ اس کیٹگری میں ایک سال کے دوران 419 خواتین ملازمین کا اضافہ ہوا۔ اس کیٹگری میں خواتین افسران کی تعداد 7 ہزار 150 ہے۔
ڈومیسائل کے لحاظ سے اس کیٹگری میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد 62.60 فیصد، سندھ 20.71 فیصد، خیبر پختونخوا 9.60 فیصد بلوچستان کا حصہ 3.06 فیصد ہے جبکہ کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کی تعداد 3 فیصد رہی۔
سرکاری ملازمتوں کی جانب مجموعی رجحان کو دیکھا جائے تو اس میں ہونے والا اضافہ بھی معمولی ہے۔ پہلی کیٹگری میں گذشتہ پانچ سال میں سرکاری اداروں میں نشستوں کی تعداد میں صرف چھ فیصد اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ دو سال میں یہ اضافہ 0.39 فیصد ہی رہا۔ دوسری کیٹگری میں سالانہ اضافہ 0.45 فیصد ہی رہا ہے۔
وفاقی حکومت سے ایک محکمہ گلگت بلتستان کو جانے کی صورت میں خواتین کا تناسب مزید کم ہو گیا ہے تو دوسری جانب دوسری کیٹگری میں اضافہ دو فیصد ہے۔
حکام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق وفاقی اداروں میں میرٹ کے علاوہ ملازمتوں میں خواتین کے 10 فیصد کوٹہ پر عمل درآمد اور اداروں میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قوانین کا نفاذ بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی دلچسپی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ گذشتہ 10 برسوں میں نجی شعبوں میں پرکشش تنخواہ، مراعات اور بہتر ماحول کی فراہمی ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں