غیرملکی فنڈنگ کا الزام: تیونس میں النہضہ پارٹی کے خلاف تحقیقات کا آغاز
غیرملکی فنڈنگ کا الزام: تیونس میں النہضہ پارٹی کے خلاف تحقیقات کا آغاز
جمعرات 29 جولائی 2021 19:17
النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کے مطابق ان کی جماعت کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو اے ایف پی
تیونس کی مذہبی سیاسی جماعت النہضہ پر انتخابی مہم کے لیے غیر ملکی فنڈز اور گمنام ذرائع سے عطیات وصول کرنے کے الزام میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق تیونس کی قومی انسداد بدعنوانی ایجنسی اور ٹروتھ اینڈ ڈگنیٹی کمیشن کے تحت النہضہ کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب قومی انسداد بدعنوانی ایجنسی کو خود بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
تیونس کے صدر قیس سعید کی جانب سے وزیراعظم اور کابینہ کے اہم اراکین کو برطرف کیے جانے اور پارلیمان کو تیس دنوں کے لیے معطل کرنے کے بعد سیاسی جماعت کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ پارلیمان میں النہضہ جماعت کی اکثریت ہے۔
النہضہ اور دو دیگر سیاسی جماعتوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے سنہ 2019 کے انتخابات سے قبل غیر قانونی طریقے سے فنڈز حاصل کیے تھے۔
دفتر استغاثہ کے ترجمان محسن دالی کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی مالی اعانت اور نامعلوم ذرائع سے وصول ہونے والے فنڈز سے متعلق تحقیقات کی جائیں گی۔‘
النہضہ کے سربراہ اور پارلیمانی سپیکر راشد الغنوشی کے مطابق ان کی جماعت کو تیونس کے معاشی اور دیگر مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
راشد الغنوشی نے جماعت پر لگائے گئے الزامات سے اتفاق کیا کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے بجائے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر جماعتوں کی طرح ان کی جماعت کو بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
النہضہ جماعت نے صدر قیس سعید پر بغاوت کا الزام عائد کیا ہے، تاہم عالمی سطح پر اس دعوے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں نے صدر قیس سعید کے اقدام کی مکمل مذمت کے بجائے جلد نیا وزیراعظم تعینات اور حکومت تشکیل کرنے کا کہا ہے۔
صدر قیس سعید کا کہنا ہے کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب وہ خود کریں گے۔
سیاسی تجزیہ کار صلاح الدین جورشی کے مطابق صدر قیس سعید نئی حکومت کے سربراہ کے انتخاب میں انتہائی احتیاط برتیں گے۔ وہ قابل اعتماد اور وفادار شخص چاہتے ہیں جو ان کی پالیسیوں سے اتفاق کرے۔
صدر قیس سعید نے وزیراعظم کو برطرف کرنے کے حوالے سے کہا کہ ان کے اقدامات معاشی اور صحت کے بحران سے دوچار ملک کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری تھے۔
ریٹائرڈ فوجی افسر اور سکیورٹی امور کے ماہر عمر اودھرنی کے مطابق ’ملک گیر مظاہروں کے بعد کیے گئے صدارتی اقدام سے صورت حال بہتر ہوئی ہے اور ریاست اورعوام کو تحفظ حاصل ہونے میں مدد ملی ہے ، جبکہ حکمران جماعتیں بھی عوام کے غصے سے بچ گئی ہیں۔‘