Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہائی پروفائل کیسز میں میڈیا تفتیش کے عمل پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

نور مقدم کیس کے حوالے سے نہ صرف پولیس بلکہ متاثرہ خاندان نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ (فوٹو: اسلام آباد پولیس)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پوش علاقے میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم قتل کا کیس اس وقت پاکستان میں میڈیا کے لیے سب سے بڑی خبر ہے اور آئے روز اس کیس کے حوالے سے مختلف ذرائع سے خبریں سامنے آ رہی ہیں۔  
انہی خبروں کے پیش نظر بدھ کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں میڈیا سے درخواست کی گئی کہ غیر تصدیق شدہ خبروں کی نشر و اشاعت سے گریز کیا جائے۔  
بیان میں کہا گیا کہ ’کچھ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ٹولز نور مقدم کیس کے حوالے سے غیر مصدقہ خبریں پھیلا رہے ہیں، جن میں سچائی نہیں اور ایسی خبروں سے تفتیش کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔‘  
نور مقدم کیس کے حوالے سے نہ صرف پولیس بلکہ متاثرہ خاندان کے بھی تحفظات ہیں جس کا اظہار وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کیا ہے۔
بدھ کو قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران انہوں نے کہا کہ ’میری ملاقات متاثرہ خاندان سے ہوئی ہے اور وہ اب تک کی تفتیش کے عمل سے مطمئن ہیں البتہ خاندان کی پرائیویسی متاثر ہونے کے حوالے سے انہیں تحفظات ہیں۔‘  

’میڈیا رپورٹس کے ذریعے عوامی سطح پر ایک مخصوص تاثر بن جاتا ہے‘

سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ افضل شگری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کسی بھی زیر تفتیش کیس کے بارے میں جب میڈیا کے ذریعے تفصیلات سامنے آتی ہیں اس سے عام لوگوں کی رائے قائم ہونا شروع ہو جاتی ہے، لیکن اگر وہ معلومات درست نہ ہوں تو پھر نہ صرف پولیس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ تفتیشی افسر کو بھی جرح کے دوران دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’جب میڈیا رپورٹس کے بارے میں تفتیشی افسر سے جرح کے دوران عدالت میں پوچھا جاتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ حکام نے خبروں کی تردید کیوں نہیں کی، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ اتنی خبریں آ رہی ہوتی ہیں اس دوران کتنی خبروں کی تردید کی جائے۔‘  
سابق وزیر قانون اور سینیئر قانون دان خالد رانجھا کے خیال میں ’میڈیا رپورٹس سے تفتیش کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے خاص طور پر ان کیسز میں جہاں ملزمان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ان کیسز میں میڈیا رپورٹس ملزمان کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں۔‘  
خالد رانجھا نے موٹروے ریپ کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’موٹر وے ریپ کیس میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر جو معلومات سامنے آرہی تھیں اس سے تفتیش میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کیونکہ وہ ایک اندھا کیس تھا اور ملزمان کی تلاش کی جارہی تھی۔ اس لیے ایسی ایسی معلومات سامنے آرہی تھیں جس سے تفتیش کا بیڑا غرق ہورہا تھا۔‘

شکیل انجم کہتے ہیں کہ آگے بڑھ جانے کی ریس کے باعث صحافت کا معیار گر چکا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں زیر تفتیش کیس پر رپورٹنگ کرنے کے حوالے سے کوئی قانونی روک تھام موجود ہی نہیں ہے اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔‘ 

’نور مقدم کیس کی رپورٹنگ انتہائی مایوس کن ہے‘ 

انگریزی اخبار دی نیوز کے ساتھ منسلک سینئیر کرائم رپورٹر شکیل انجم کہتے ہیں کہ ٹی وی چینلز آنے کے بعد سے ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی ریس کے باعث صحافت کا معیار گر چکا ہے۔  
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’نور مقدم کیس میں جو کرائم رپورٹنگ ہو رہی ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے، تفتیش کے دوران جو معلومات میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں اس سے تفتیش کے کئی پہلووں کے دروازے ہی بند ہو جاتے ہیں، لیکن ہمیں اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی اس ریوڑ میں شامل ہوگئے ہیں جس کی کوئی سمت ہی نہیں ہے۔‘ 
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بعض پولیس اہلکار جن کا تفتیش سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا وہ خود کو باخبر ظاہر کرنے کے لیے صحافیوں سے ایسی گفتگو کرتے ہیں جو کہ بعد میں خبر بن جاتی ہے اور اس کا پراسیکیوشن پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات پولیس افسران ’آف دی ریکارڈ‘ بات کرتے ہیں، اور آف دی ریکارڈ گفتگو کو صحافتی اصول کے مطابق خبر نہیں بنایا جاسکتا لیکن اب آف دی ریکارڈ گفتگو کو بھی خبر بنا دیا جاتا ہے اور اس سے اکثر ملزمان کو غیر دانستہ طور پر فائدہ پہنچتا ہے۔‘ 
سینئر صحافی اور جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد کے مطابق ’اگر میڈیا ایسے کیسز کو زیادہ اجاگر نہ کرے اور جارحانہ رپورٹنگ نہ کرے  تو غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہیں پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن میڈیا کو اپنی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ فیملی کی پرائیویسی کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا چاہیے۔‘  
رانا جواد نے کہا کہ‘ فیملی پرائیویسی کو تحفظ دینا ان کا بنیادی حق ہے اور پوری دنیا میں اس حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے قوانین کی ضرورت ہے کہ متاثرین کی پرائیویسی کو یقینی بنایا جائے۔‘

سابق آئی جی سندھ افضل شگری کے خیال میں ’پولیس کی ٹریننگ کی ضرورت ہے کہ میڈیا کو کیسے ڈیل کیا جائے (فوٹو اسلام آباد پولیس)

انہوں نے کہا کہ ’صحافی پر خبر کے حوالے سے  دباؤ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ اس دباؤ میں آ کر غلط اور حساس معلومات خبر نہ بنیں اور کوئی بھی اچھا ایڈیٹر کوئی ایسی خبر دینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا جو مصدقہ نہ ہو۔‘  
رانا جواد کے مطابق ’بدقسمتی سے پولیس اس حوالے سے تربیت یافتہ نہیں ہے اس لیے بھی خبروں کے اندر غیر ذمہ داری کا عنصر ظاہر ہوتا ہے۔‘
سابق آئی جی سندھ افضل شگری کے خیال میں ’پولیس کی ٹریننگ کی ضرورت ہے کہ میڈیا کو کیسے ڈیل کیا جائے، سوشل میڈیا پر تو کوئی کنٹرول نہیں، لیکن افواہیں خبریں نہ بنیں اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ ایسے کیسز جن میں عوامی دلچسپی زیادہ ہو ، پر روزانہ کی بنیاد پر میڈیا بریفنگ دی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کچھ نیا سامنے نہیں بھی آتا تو پھر بھی روزانہ میڈیا کو ایسی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے جو حساس نہیں ہے تاکہ غلط اور غیر تصدیق شدہ خبریں نشر نہ ہوں اور سوشل میڈیا پر غلط خبروں کو بھی اسی ذریعے سے روکا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: