وزیراعظم کے نئے معاون خصوصی ارباب غلام رحیم کون ہیں؟
وزیراعظم کے نئے معاون خصوصی ارباب غلام رحیم کون ہیں؟
اتوار 1 اگست 2021 5:53
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وزیراعظم عمران خان نے ارباب غلام رحیم کو معاون خصوصی برائے سندھ امور مقرر کیا ہے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اچانک سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو اپنا معاون خصوصی برائے سندھ امور مقرر کیا تو سیاسی حلقوں میں چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم کیا سندھ میں بھی کوئی انتخابی معرکہ دیکھ رہے ہیں؟
تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ارباب غلام رحیم سندھ کے ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق سمیت پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی جماعت سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان کا تازہ پڑاؤ پی ٹی آئی میں ہوا ہے۔
ارباب غلام رحیم نے رواں ماہ کے شروع میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
مقامی میڈیا کے مطابق وزیراعظم کا اگست سے سندھ میں جلسوں کا منصوبہ ہے اور اس سے قبل یہ اہم تعیناتی کی گئی ہے تاکہ سندھ سے مزید نامور سیاسی شخصیات کو پارٹی میں شامل کیا جا سکے۔
پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد ارباب غلام رحیم نے کہا کہ 'وزیراعظم عمران خان نے انہیں سندھ میں پی ٹی آئی کو منظم کرنے کا ہدف دیا ہے اور آنے والے دنوں میں صوبے سے مزید اچھی خبریں ملیں گی۔'
ایک صوبے کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی کا تقرر کئی حلقوں میں باعث حیرت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ عام طور پر وفاقی کابینہ میں صوبائی امور کا مشیر یا معاون نہیں رکھا جاتا۔۔
تاہم عمران خان اس سے قبل شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی برائے مصالحت اور ہم آہنگی بلوچستان مقرر کر چکے ہیں۔
ہر سیاسی جماعت کا حصہ رہنے والے ارباب غلام رحیم کون ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سندھ سے ’ارباب گروپ‘ کے رکن اسمبلی رزاق راھموں نے بتایا کہ 'ارباب غلام رحیم نے عملی سیاست کا آغاز 1985 میں کیا۔'
'وہ ڈسٹرکٹ کونسل میرپور خاص کے چیئرمین رہے۔ 1990 میں سندھ کے علاقے ننگر پارکر سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔'
سنہ 1993 میں تھرپارکر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ارباب غلام رحیم نے سندھ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے اتحاد بنایا۔
سنہ 2002 کے عام انتخابات میں اسی پلیٹ فارم سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ پھر مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے اور صوبے کے وزیراعلی بن گئے ان کا دور 2008 تک جاری رہا۔
اس کے بعد 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر دوبارہ ایم پی اے بنے۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں بھی ق لیگ سے ایم پی اے بنے، تاہم الیکشن کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کے بعد ارباب غلام رحیم نے اپنی جماعت پیپلز مسلم لیگ (پی ایم ایل) کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کر دیا۔
سنہ 2018 کے انتخابات میں انہیں اپنے بھتیجے ارباب لطف اللہ نے ہرا دیا۔ لطف اللہ پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہے تھے اور ارباب غلام رحیم جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے ان کے سامنے تھے۔
تھرپارکر میں ارباب خاندان کا سیاسی اثر ورسوخ
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ارباب غلام رحیم کے خاندان کا قیام پاکستان سے سیاسی اثر ورسوخ ہے۔
رزاق راھموں نے بتایا کہ 'ارباب غلام رحیم کے چچا قیام پاکستان سے قبل سندھ اسمبلی کے رکن تھے اور انہوں نے پاکستان کے حق میں سندھ اسمبلی کی قرارداد پر دستخط بھی کیے تھے۔'
'ان کے بھائی ارباب امیر حسن دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ ان کے ہی ایک کزن ارباب فیض تین بار ایم پی اے اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کے ایک اور کزن ارباب عطا اللہ ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں اور وزیر بھی رہے ہیں۔'
رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ 'وہ ارباب غلام رحیم کے پی ٹی آئی جوائن کرنے کے فیصلے سے متفق ہیں۔ جام صادق کے بعد سندھ کو ان کی شکل میں ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر ملا تھا۔ بیوروکریٹس ان سے خوفزدہ تھے اور عوام کو ریلیف ملتا تھا۔'
سندھ کی سیاست پر گذشتہ 20 سال سے نظر رکھنے والے صحافی کامران رضی کے مطابق 'ارباب غلام رحیم نے بطور وزیراعلٰی صوبے بالخصوص تھرپارکر میں کافی ترقیاتی کام کروائے تھے اور وہ ایک سخت گیر منتظم کے طور پر مشہور ہوئے۔'
'وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں۔ اسٹیبشلمنٹ کے ہمیشہ سے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جب پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو ارباب غلام رحیم نے اپنے عزیز کو تھرپارکر سے استعفیٰ دلوا کر شوکت عزیز کو الیکشن جتوایا تھا۔'
کامران رضی کے مطابق 'ارباب غلام رحیم مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور ان کے دور میں معروف مبلغ مولانا طارق جمیل باقاعدہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں آ کر افسران کو لیکچرز دیتے تھے۔'
'سنہ 2008 کے الیکشن کے بعد جب وہ حلف اٹھانے کے لیے اسمبلی میں آئے تو ان کے ساتھ ناخوش گوار واقعہ بھی پیش آیا تھا جب ڈاکٹر جاوید نامی شخص نے انہیں جوتا مار دیا تھا۔'
کامران رضی کہتے ہیں کہ 'ارباب غلام رحیم گذشتہ تین سال سے سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں اور تھرپارکر میں اثر ورسوخ کے باوجود وہ صوبہ سندھ میں بہت زیادہ سیاسی اثر نہیں رکھتے۔'