Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف کا ایک بار پھر مفاہمت پر زور: ماضی بھلانے کا مشورہ

شہباز شریف نے کہا کہ میاں نواز شریف میرے قائد ہیں ہم ہر معاملے میں ان سے مشاورت کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ماضی کو بھلاتے ہوئے ایک بار پھر قومی مفاہمت پر زور دیا ہے۔
اتوار کو جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں شہباز شریف کا ان کی مفاہمت کی پالیسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہنا تھا کہ ’دیکھیں یا تو ہم ماضی میں پھر جو حساب کتاب ہے اس کی طرف چل پڑیں اور تمام اپنی توانائیاں اس پر لگا دیں۔‘
’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہیں یہ نہیں کہ کسی ایک واحد شخص یا کسی ایک ادارے کا قصور ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کا بہتر حل یہ ہے کہ ماضی سے ہم سبق سیکھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ آگے بڑھیں یا جو 72 سال کی تاریخ ہے اس میں گم ہو جائیں اور کہیں کہ نہیں ہم پہلے احتساب کریں گے اور پھر آگے بڑھیں گے۔‘
شہباز شریف نے اپنے استعفے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے استعفے کی خبر جعلی ہے، منظر سے غائب نہیں ہوں۔‘
انہوں نے کہا ’ن لیگ ہمارا گھر ہے، یہ نواز شریف نے بڑی محنت سے بنایا ہے۔‘
’میری رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کوئی بھی ہو ہمیں ملک کے لیے ذاتی انا کو ختم کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف میرے قائد ہیں، ہم ہر معاملے میں ان سے مشاورت کرتے ہیں۔ جب مشاورت ہوتی ہے تو اس میں سب کو اپنی اپنی رائے دینےکا حق حاصل ہوتا ہے۔
شہباز شریف نے کارگل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب تو تاریخ کی کتابوں میں لکھا جا چکا ہے کہ کارکل جنگ کے معاملے مشاورت کا کتنا دخل تھا۔ مجھے وزیراعظم نواز شریف نے بتایا تھا کہ ان کے ساتھ جو مشاورت ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی تھی۔‘
مسلم لیگ نواز کے صدر کا کہنا تھا کہ ’غلطیاں سب سے ہوئی، مشرقی پاکستان کا جدا ہو جانا اس سے بڑا کوئی سانحہ ہو سکتا ہے۔ ہم سیاست دانوں نے بھی ان 72 سالوں میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی ہیں۔ ہم سب آلہ کار بنے ہیں۔‘
ان کا مارشل لاؤں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’اسی طرح جب شب خون مارے گئے تو اس سے کتنی تباہی ہوئی، جمہوریت کا پودا کبھی بھی پنپ نہیں سکا۔ ہمیں سے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔‘
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم پارٹی میں مشاورت کرتے ہیں اور میری رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میں تو قومی مفاہمت کی بات کرتا ہوں کہ جو ہوا اس کا ہم ادراک کریں اور اس سے سبق حاصل کریں۔‘

شیئر: