پاکستان کی قومی اسمبلی میں بجٹ2021 کی منظوری کے وقت قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی عدم موجودگی نے پارلیمانی اپوزیشن کے اتحاد پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
منگل کو ایک موقع پر بجٹ بحث کے دوران ارکان کی گنتی کی گئی تو حکومت کے 172 اور اپوزیشن کے 138 ارکان موجود تھے جبکہ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کے کم سے کم 160 ارکان موجود ہونے چاہیے تھے۔
اپوزیشن کے 22 کے قریب غائب ارکان میں اکثریت نواز لیگ کی تھی اور اس اہم ترین اجلاس میں شرکت نہ کرنے والوں میں شہباز شریف بھی شامل تھے۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان میں ’بجٹ کا حکومت کو بھی علم نہیں تو یہ بنایا کس نے؟‘Node ID: 577626
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ ’وہ بجٹ کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان کی تعداد پوری نہ ہونے کا معاملہ شہباز شریف کے سامنے اٹھائیں گے۔‘
یاد رہے کہ 17 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ ’وہ بجٹ کی منظوری نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’ملک کے 22 کروڑ عوام نے ہمیں یہاں بھجوایا ہے اور ہم ان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے اور اس بجٹ کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے۔ تین سال بعد ہمیں دوبارہ ریورس گیئر لگ چکا ہے اور اگر مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی نہیں ہوئی تو یہ بجٹ دھوکہ ہے۔‘
تاہم منگل کو اجلاس میں شہباز شریف کی عدم موجودگی کو بہت واضح طور پر محسوس کیا گیا۔
ان کی عدم موجودگی پر تنقید کے بعد مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وضاحتی ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی اور برادر نسبتی میاں طارق شفیع کی وفات کے باعث جنازے اور لاہور میں رسم قل کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان کی عدم موجودگی پر پریشان ہونے والے اب ان سے تعزیت کر سکتے ہیں۔‘

مریم اورنگزیب نے مزید کہا حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام ارکان کے موجود ہونے کے باوجود بجٹ منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ بجٹ 172 ووٹ سے منظورہوا، اختر مینگل اور جماعت اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد اپوزیشن کے کل ووٹ 161 بنتے تھے جس سے فنانس بل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ سستی سیاسی بیان بازی لاحاصل مشق ہے۔
ن لیگ کی ترجمان نے کہا کہ اپوزیشن کا کام بجٹ نکات کی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی ہوتا ہے۔ تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں اپوزیشن کی نشاندہی پر خاصی تبدیلیاں ہوئیں اور حکومت کو پے درپے اتنے یوٹرنز لینے پڑے۔ فنانس بل میں اپوزیشن کی تجویز کردہ 15 شقوں میں 35 سے زائد ترامیم کی گئیں۔
ادھر سما ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بلاول بھٹو کے بیان کو غیر زمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پیپلز پارٹی فنانس بل پر ہم سے شرارت کر رہی ہے۔ میں پیپلز پارٹی کے رویے کی مذمت کرتا ہوں۔‘
اس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان مکمل تھے ’میں اپنی ہی جماعت کا ذمہ دار ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اپوزیشن کی تعداد پوری نہ ہونے کا معاملہ شہباز شریف کے سامنے اٹھاؤں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سپیکر نے آج ہمارے حق پر ڈاکہ مارا گیا ہے اگر یہ غلطی درست نہ ہوئی تو یہ بجٹ غیر قانونی ہوگا۔‘
