سعودی عرب میں دو ہزار سال قدیم آبی گزرگاہ نہر فرزان
قریبی پہاڑ سے جڑے ہوئے اس آبی راستے کے آثار تقریبا 7 کلومیٹر تک ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کے وسطی علاقے میں زیرزمین پائی جانے والی فرزان آبی گزرگاہ اپنی دو ہزار سال کی تاریخ کے ساتھ، یونیسکو کے عالمی ورثہ کی فہرست میں سعودی عرب کی جانب سے ساتویں نمبرپرہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کی الخرج کمشنری کے شمال مغرب میں واقع یہ آبی گزرگاہ سات ہزار میٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ قریبی پہاڑوں سے زیر زمین پانی کھیتوں میں لانے کے لیے یہ آبی راستہ استعمال کیا جاتا تھا۔
کنگ سعود یونیورسٹی میں جغرافیے کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان الجویدی نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ کسی کو صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اس نہر کا نام فرزان کیسے رکھا گیا۔
آبپاشی کا یہ طریقہ کار ہزاروں سال قدیم ہے اور اس نہری نظام کے نام کو قریب واقع پانی کے کنویں سے منسوب کیا جا تا ہے۔
قریبی پہاڑ سے دریافت ہوا یہ آبی راستہ تقریبا 7 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور وہاں سے قبل اسلام اور قبل مسیح دور کی تقریبا 5 ہزار مشترکہ قبروں کا بھی سراغ ملا ہے جس سے ان علاقوں میں انسانی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
اس علاقے کی تاریخ کے کچھ شواہد قبل السلام کی شاعری سے بھی ملتے ہیں۔
فرحان الجویدی نے بتایا کہ آبپاشی کا یہ مخصوص نظام زیر زمین بنایا گیا تھا کیونکہ جو لوگ اسے استعمال کرتے تھے وہ آبپاشی انجینئرنگ کی اس بات سے آگاہ تھے کہ اگر پانی کو زمینی سطح پر دور دراز لے جایا جائے تو وہ بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔
اس نظام کے ذریعے قریبی چشموں یا کنووں سے پانی لے کر زیر زمین راستوں سے دور دراز موجود کھیتوں کو سیراب کیا جاتا رہا ہے۔
فرحان الجویدی نے بتایا کہ مزید شواہد ملتے ہیں کہ موجود پانی کے کچھ کنویں یہا ں کےباشندوں اور ان کی فصلوں کے لئے زیادہ پانی فراہم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتے تھے۔
اس خطے کے بارے میں ایک کتاب لکھنے والے فرحان الجویدی نے جو اس خطے کی تاریخ کے بارے میں کتاب بھی لکھی ہے ، بتایا کہ اس علاقے میں زیر زمین 150 کے قریب ایسے سوراخوں کا ایک سلسلہ ہے جن کی گہرائی 20 سے25 میٹر تک ہے۔
نہر سے یہ چھوٹے کنووں کی مانند سوراخ پانچ سے چھ میٹر کے فاصلے پر ہیں، یہ آبی گزرگاہ مملکت میں قدیم دور کی کسی بھی دوسری نہر سے زیادہ لمبی ہے۔
پروفیسر فرحان نے آثار قدیمہ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر جاسر الحربش سے نہر فرزان کی خصوصیات کے بارے میں بات کی ہے۔
ڈاکٹر جاسر الحربش نے اس علاقے کی ترقی اور تحفظ میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ یہ خصوصی علاقہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کنگ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز(درہ) کی جانب سے اس آبی گزرگاہ کی جگہ اور قریبی فرزان پہاڑی کی ہموار چوٹیوں پر واقع قبروں کے بارے میں اہم سٹڈی کی گئی ہے۔
فرزان کی آبی گزرگاہ کی بحالی کا منصوبہ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے دور میں شروع ہوا تھا اور یہ 1950 کی دہائی تک جاری رہا۔
میرا مشورہ ہے کہ اس علاقے کا یونیسکو میں اندراج کے بعد صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال ضروری ہے کیونکہ یہاں موجود کنویں کچرے اور فضلے سے بھر گئے ہیں۔
الجویدی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے اس علاقے نے بہت سے مغربی سیاحوں اور محققین کو اپنی جانب متوجہ کیاہے۔ ان سیاحوں اور محققین میں گلین براؤن، جان فلبی، جیرالڈ ڈی گوری اور ڈینیل وان ڈر میولن کے نام شامل ہیں۔
شاہ عبدالعزیز کی جانب سے 1944 میں جغرافیائی سروے کے لیے امریکی محقق گلین براون کو ریگستان میں پانی کی فراہمی کی تحقیق کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
اپنے مشن میں گلین براون نے الخرج ریجن میں1945 کے آغاز میں ارضیاتی تحقیق کی تھی۔ ان کے اس کام کو امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری میں مقالے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔