کورونا کی وبا میں سعودی نوجوانوں میں قدرتی گھنگریالے بالوں کا رجحان
بالوں کی مصنوعات کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے آن لائن کاروبار شروع کیا (فوٹو عرب نیوز)
کورونا وائرس کی وبا میں لگایا جانے والا لاک ڈاؤن ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آیا ہے اور بہت سے سعودی شہری قدرتی وضع قطع اپنا رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ہیر سلون بند ہونے سے لاکھوں لوگ اپنے بالوں کا خیال رکھنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔
بہت سارے سعودیوں کے نزدیک بالوں کی حفاظت تھراپی اور تجربات کرنے کا ذریعہ ہے۔
جدہ سے 25 سالہ امیرا حسن نے کہا کہ وہ پچھلے 10 برس سے اپنے سخت اور قدرتی گھنگریالے بالوں کو بال سیدھے کرنے والے کیمیکل سے چھپا رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے لیے کئی مہینوں تک سلون نہ جانا بہت خوفناک تجربہ تھا۔ میں بچپن سے اپنے بالوں سے نفرت کرتی تھی، لیکن وبا کی وجہ سے قدرتی ہیر سٹائل کے رجحان نے میرے اندر اعتماد اور یکجہتی کا جذبہ پیدا کیا اور میں اپنے بالوں کو قبول کر لیا۔‘
جدہ ہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سارہ احمد نے کہا کہ ’لاک ڈاؤن نے میرے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ میں اپنے بالوں کی ساخت کو قبول کروں، اور گھر سے کام کرنے سے میں نے اپنے گھنریالے بالوں کو سٹیٹنر سے سیدھا نہیں کیا۔‘
گذشتہ برس کے دوران ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور علاقائی انفلوئنسرز گھنگریالے بالوں کے انقلاب کو ابھارنے کا ذریعہ ہیں۔
بالوں کی مصنوعات کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے آن لائن کاروبار شروع کیا ہے۔
ہیسا الشریف ہیر سپیشلسٹ اور کرل بوتیک کی مالک ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے جدہ میں قدرتی گھنگریالے بالوں کی طرف توجہ دی۔
انہوں نے امریکہ سے گھنگریالے بالوں کو کاٹنے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد وبا میں اپنی بوتیک کھولی تاکہ سعودی نوجوان اپنے قدرتی حس کو اپنائیں۔