کابل کے شہریوں میں مستقبل کے حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
دو دن قبل جہاں ملک کے دیگر حصوں کی بنسبت کابل میں زندگی معمول پر تھی، لوگ اپنے دفتروں کو جا رہے تھے، والدین بچوں کو سکول بھیج رہے تھے اور دکانیں اور مارکیٹیں کھلی تھیں، گذشتہ رات کابل کے قریب اچانک کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے بعد کابل کے شہریوں میں بھی بے چینی بڑھنے لگی ہے۔
اتوار کو شہریوں کی اس بے چینی اور تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سرکاری دفاتر بند ہوئے اور یہ خبر آئی کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اقتدار کی منتقلی سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے۔
کابل شہر میں مارکیٹیں بھی بند ہو گئی ہیں، لوگ گھروں تک محدود ہو گئے ہیں اور بینکوں میں بھی بے حد رش دیکھا گیا۔
کابل کے شہری اکرام اللہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ملک کے حالات اتنے جلدی بدل جائیں گے اور افغان فوج پیچھے ہٹ جائے گی۔
اکرام اللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ’کل رات سے کابل کی فضا بے چین ہے اور ضرورت سے زیادہ ہیلی کاپٹر گھوم رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں حکومت اور فوج پر بھروسہ تھا لیکن اچانک یہ کیا ہوا، یہ چیز سمجھ نہیں آ رہی۔ ہمارے خواب جیسے جیسے بکھر رہے ہیں، ویسے ہی ہماری امید بھی ختم ہو رہی ہے۔‘
افغان حکومت نے کابل کے شہریوں سے کہا ہے کہ شہر محفوظ ہے اور اس پر حملہ نہیں ہوگا لیکن کابل کے مرکزی علاقوں میں معمولات زندگی بند ہے۔
کابل کے ایک اور شہری عمر شیر کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے امریکہ نے ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہو۔
’بیس سالوں سے افغانستان میں جو ترقی ہوئی وہ جیسے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہو۔‘
صحافی فیروزہ عزیزی کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات اچانک بدل گئے ہیں اور یہ تشویش کا باعث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تو نہ بھوک لگ رہی ہے اور نہ نیند آ رہی ہے۔
’اس دفعہ وہ جھگڑا نہیں جو پہلے تھا لیکن میں مستقبل کے لیے فکر مند ہوں، آج زندگی معمول کی نہیں۔ میں نے پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ گھر کی کفیل ہوں۔ پتا نہیں کل گھر سے نکل بھی پائیں گے، نوکری کر بھی سکیں گے یا نہیں بس یہی فکر ہے۔‘
کابل میں مورا ایجوکیشن کمپلیکس کی فائنل ایئر کی میڈیکل طالبہ سمعیہ کا کہنا ہے کہ انتطامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ایک ہفتے میں امتحانات لیے جائیں گے تاکہ جلدی فائنل ایئر کے طالب علموں کو فارغ کیا جائے لیکن حالات تو بہت بدل گئے ہیں۔
’امتحانات جو ایک ہفتے میں ہونے تھے وہ پتا نہیں اب کب ہوں گے، اب تو ایسا لگ رہا ہے جیسے ہوں گے ہی نہیں۔‘
کابل کی ایک خاتون جو داخلی طور پر بے گھر افراد کے لیے کھانے کا انتظام کرتی تھیں اب انہیں تشویش ہے کہ شاید وہ اکیلے گھر سے نہ نکل سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ان کی بیٹی کو طالبان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے پینک اٹیک ہوا اور وہ یہ سوچ رہی ہیں کہ طالبان پر الزامات لگتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی زبردستی شادی کرواتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔‘