Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: طالبان کی واپسی

کابل میں طالبان کی واپسی سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا گول ہے اور اگر آپ ایک ہی سمت میں چلتے چلے جائیں تو بیس سال میں وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ نے سفر کا آغاز کیا تھا۔
دوسرا یہ کہ دنیا کے بڑے بڑے دفاعی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی باتوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے تجزیے انڈیا کے محکمہ موسمیات کی پیشن گوئیوں کی طرح ہی ہوتے ہیں، سچ ہوگئے تو ہوگئے ورنہ مستقبل میں کون جھانک سکا ہے، دوبارہ ٹرائی کریں گے۔
تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ طالبان یوں ٹہلتے ہوئے کابل میں داخل ہو جائیں گے؟ کسی کو کیوں اس کی خبر نہیں ہوئی؟
صدر اشرف غنی جہاز میں بیٹھے اور نکل لیے، ان کی اپنی وزارتی کونسل کو خبر نہیں ہوئی، اور اگر ہوئی بھی تو وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکے کہ سر اب تو آزمائش کی گھڑی آئی ہے، اگر ایسے میں آپ ہی چلے جائیں گے تو عوام کو کیا پیغام جائے گا؟
خیر، صدر غنی کے نام ٹوئٹر پر ان کی اپنی وزیر تعلیم رنگینا حمیدی کا ایک پیغام گردش کر رہا ہے، ممکن ہو تو ضرور سنیے گا۔ افغانستان میں اب کیا ہوگا، اور جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے، اس بارے میں بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ساتھ میں جواب نہیں آتے۔
مثال کے طور پر امریکہ کو یہ اندازہ تو ہوگا ہی کہ طالبان واپس آجائیں گے اور افغان افواج ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی لیکن اس کا اندازہ اتنا غلط کیسے ہوا کہ آناً فاناً میں ہیلی کاپٹر بھیج کر اپنے سفارت خانے سے عملے کو نکالنا پڑا؟
یہ سیٹلائٹ کس دن کام آئیں گی؟ اور قطر میں طالبان سے بات چیت کیوں ہو رہی تھی؟ اب طالبان کے واپس آجانے کے بعد امریکہ ان سے بات کرے گا یا پھر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردے گا؟
ان سب سوالوں کے جواب شاید دو تین دنوں میں ملنا شروع ہوجائیں گے اور کافی حد تک اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ اپنے دوسرے اوتار میں طالبان کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

افغانستان میں پلک جھپکتے ہی باقی ملکوں کی طرح انڈیا کی پالیسی بھی تتر بتر ہوگئی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

کیا قطر میں شہری حقوق کی پاسداری کے جو وعدے کیے جارہے تھے ان پر عمل کیا جائے گا یا وہ صرف مغربی دنیا کو بات چیت میں الجھانے کے لیے تھے اور افغانستان میں اب اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو امریکی فوجی کارروائی کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا۔
یہ سارے سوال انڈیا میں دفاعی اور سفارتی اسٹیبشلمنٹ کے ذہنوں کو بھی پریشان کر رہے ہوں گے۔ انڈیا نے گذشتہ چند برسوں میں افغانستان میں خود کو ایک سافٹ پاور کے طور پر پیش کیا تھا۔
انڈیا نے وہاں سڑکوں، سکولوں اور ہسپتالوں سے لے کر کابل میں پارلیمان کی عمارت تک، اربوں ڈالر خرچ کرکے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس پر کام کیا۔ اس کے علاوہ ایران کا چابہار بندرگاہ انڈیا کی مجموعی افغان پالیسی کا ایک کلیدی حصہ ہے۔
لیکن پلک جھپکتے ہی باقی ملکوں کی طرح انڈیا کی افغان پالیسی بھی تتر بتر ہوگئی ہے۔ انڈیا کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ طالبان سے بات کرے یعنی اگر سفارتی زبان استعمال کریں تو ان سے اینگیج کرے یا یہ واضح موقف اختیار کرے کہ طالبان نے فوجی قوت استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا ہے لہٰذا ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

صدر بائیڈن تو سوچ رہے ہوں گے کہ لفظوں کے استعمال میں ذرا احتیاط سے کام لیتے تو بہتر ہوتا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان میں انڈیا کی دلچسپی کیوں ہے، کیوں انڈیا چابہار بندرگاہ کے راستے گندم اور دیگر امداد افغانستان بھیجتا رہا ہے؟ ظاہر ہےکہ انڈیا افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کو قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔
افغانستان میں اگر انڈیا کی دوست حکومت اقتدار میں آتی ہے تو پاکستان کے لیے بری خبر ہے کیونکہ ایک سرحد پر انڈیا ہے اور دوسری پر افغانستان۔ اور اگر افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت بنتی ہے تو انڈیا کے لیے بری خبر ہے کیونکہ پھر پاکستان ’سٹریٹجک ڈیپٹھ‘ کے فوجی نظریےکو عملی شکل دے سکتا ہے۔ کم سے کم دلی میں تو ماہرین یہ ہی مانتے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ انڈیا اب افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کو کیسے کنٹرل کر پائے گا؟
موجودہ حالات میں یہ مشکل لگتا ہے۔ انڈیا کے لیے افغانستان پہنچنے کے صرف دو راستے ہیں۔ پاکستان سے ہوکر افغانستان پہنچا جائے اور وہاں سے وسطی ایشیا، یہ سب سے آسان اور زمین کا راستہ ہے، لیکن اس کے لیے پاکستان سے دوستانہ تعلقات درکار ہیں جو فی الحال نہیں ہیں۔ دوسرا راستہ سمندر سے ہے۔ پہلے چابہار اور پھر ایران میں ریل یا روڈ لنک سے افغانستان۔

اس وقت تو نگاہیں پاکستان پر ہوں گی کہ وہ نئی حکومت کے قیام میں کیا کردار ادا کرتا ہے (فائل فوٹو: وزیراعظم آفس)

لیکن اب حکومت بدل جانے سے پورا علاقائی سیاسی منظرنامہ بدل جائے گا۔ اس وقت تو نگاہیں پاکستان پر ہوں گی، وہ نئی حکومت کے قیام میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ افغانستان میں طالبان جو بھی حکومت بنائیں گے، انڈیا میں اسے راولپنڈی کی پراکسی حکومت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
لیکن نگاہیں امریکی صدر جو بائیڈن پر بھی ہوں گی۔ جولائی میں ایک پریس کانفرنس میں ان سے بار بار پوچھا گیا تھا کہ افغانستان میں وہ تو نہیں ہوگا جو (سائگان (ویتنام میں ہوا؟ اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ دونوں میں کوئی موازنہ کرنا غلط ہے کیونکہ افغان فوجیں جدید ترین اسلحے سے لیس ہیں اور طالبان کا بخوبی مقابلہ کرسکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ کابل سے ہمارے سفارتی عملے کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے محفوظ مقامات منتقل کرنے کی ضروت کبھی پیش نہیں آئے گی جیسا سائگان میں ہوا تھا۔
صدر بائیڈن تو سوچ رہے ہوں گے کہ لفظوں کے استعمال میں ذرا احتیاط سے کام لیتے تو بہتر ہوتا۔ انڈیا سوچ رہا ہوگا کہ ہم کب سے کہہ رہے تھے کہ جانے کی جلدی مت کیجیے، ہماری سن لیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی اور طالبان سوچ رہے ہوں گے کہ ان لوگوں کی پلاننگ جب اتنی خراب ہے تو ہمیں کابل لوٹنے میں بیس سال کیسے لگ گئے؟
اس سوال کا جواب ہمیں معلوم ہے۔ آپ کو منزل تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اس کا براہ راست تعلق اس سمت سے ہے جو آپ اختیار کرتے ہیں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

شیئر: