Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افراتفری اور ہلاکتیں‘، طالبان کا شہریوں کو کابل ایئرپورٹ چھوڑنے کا حکم

طالبان نے ملک سے نکلنے کی امید لیے کابل ایئرپورٹ کے باہر منتظر افغان شہریوں کو یہ کہتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس جانے کا کہا ہے کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ پیشرفت اس واقعے کے ایک دن بعد ہوئی ہے جس میں طالبان جنگجوؤں کی مظاہرین پر فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اتوار کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد اگرچہ صورتحال پُر امن رہی تاہم بڑی تعداد میں شہریوں کے افغانستان سے نکلنے کے لیے کابل ایئرپورٹ کا رخ کرنے کی وجہ سے افراتفری دیکھنے میں آئی۔
نیٹو اور طالبان کے ایک عہدیدار کے مطابق ’اتوار سے اب تک ایئرپورٹ کے اطراف میں 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ ہلاکتیں فائرنگ اور افراتفری کی وجہ سے ہوئیں۔‘
طالبان کے عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم ایئرپورٹ پر کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔‘
دوسری جانب تحریک طالبان کے فیصلہ سازوں تک رسائی رکھنے والے ایک رکن نے بتایا ہے کہ ’افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی، ملک ایک حکمران کونسل کے زیرانتظام ہو سکتا ہے۔‘
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق تحریک طالبان کے ایک سینیئر رکن وحید اللہ ہاشمی نے بتایا ہے کہ حکومتی نظام ایک کونسل کے تحت ہو سکتا ہے جبکہ طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ مجموعی طور پر انچارج رہیں گے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہا کہ طالبان اپنی صفوں میں شامل ہونے کے لیے افغان پائلٹوں اور مسلح افواج کے سپاہیوں سے بھی رابطہ کریں گے۔
وحید اللہ ہاشمی نے اقتدار کے ڈھانچے کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے طرزِ اقتدار سے ملتا جلتا ہے۔ اُس وقت طالبان کے سپریم لیڈر ملا عمر نے پس پردہ رہ کر روزمرہ کے حکومتی کام ایک کونسل کے سپرد کر رکھے تھے۔
ہاشمی نے مزید کہا کہ ’ہبت اللہ اخوندزادہ ممکنہ طور پر کونسل کے سربراہ کے اوپر ایک کردار ادا کریں گے جو ملک کے صدر جیسا ہوگا۔‘
انہوں نے انگریزی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر کا کردار شاید ان کا (ہبت اللہ اخوندزادہ کا) نائب ادا کرے گا۔‘
وحید اللہ ہاشمی نے وضاحت کی کہ طالبان افغانستان کو کیسے چلائیں گے، اس بارے میں بہت سے معاملات ابھی طے نہیں ہوئے ہیں لیکن ’افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں کوئی جمہوری نظام نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہم اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ ہمیں افغانستان میں کس قسم کا سیاسی نظام لاگو کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ یہ شرعی قانون ہے اور یہی ہو گا۔‘
ہاشمی نے مزید بتایا کہ وہ طالبان قیادت کی اس میٹنگ میں شامل ہوں گے جس میں اس ہفتے کے آخر میں گورننس کے مسائل پر بات ہوگی۔
حال ہی میں معزول ہو جانے والی افغان حکومت کے لیے لڑنے والے فوجیوں اور پائلٹوں کو بھرتی کرنےسے متعلق انہوں نے کہا کہ طالبان نے ایک نئی قومی فورس قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے جس میں اس کے اپنے ارکان کے ساتھ ساتھ سرکاری فوجی بھی شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔

شیئر: