پنجشیر میں طالبان سے ایک بار پھر لڑنے کو تیار ہیں: احمد مسعود
پنجشیر میں طالبان سے ایک بار پھر لڑنے کو تیار ہیں: احمد مسعود
جمعرات 19 اگست 2021 14:31
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے سابق مجاہدین کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں احمد مسعود لکھتے ہیں کہ ’میں آج وادی پنجشیر سے لکھ رہا ہوں اور تیار ہوں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اور مجاہدین جنگجو بھی تیار ہیں ایک بار پھر طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس ہتھیار اور دیگر اسلحہٰ موجود ہے جو انہوں نے اپنے والد کے زمانے سے اکٹھا کرنا شروع کردیا تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا اس کی ایک بار پھر ضرورت پڑ سکتی ہے۔
پنجشیر افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک ہے جو کابل سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ صوبہ طالبان کے پچھلے دور 1996 سے لے کر 2001 تک میں بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں تھا اور ’شیر پنجشیر‘ کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں ناردن الائنس (شمالی اتحاد) طالبان کے خلاف جنگ اسی علاقے سے لڑتا تھا۔
آج طالبان افغانستان کے تقریباً تمام علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں لیکن پنجشیر آج بھی ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں احمد مسعود کا مضمون پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اس بار وہ اکیلے طالبان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور انہیں اتحادیوں کی ضرورت ہے۔
ان کے ایک اتحادی افغانستان کے نائب صدر اور احمد شاہ مسعود کے پرانے ساتھی امراللہ صالح ہیں جنہوں نے اشرف غنی کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’افغانستان کے آئین کے مطابق صدر کی غیرموجودگی، فرار یا موت کی صورت میں نائب صدر ملک کا نگراں صدر بن جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’میں اس وقت اپنے ملک کے اندر موجود ہوں قانونی اعتبار سے نگران صدر ہوں۔‘
احمد شاہ مسعود کے بیٹے مزید لکھتے ہیں کہ افغانستان کی آرمی کے جوان بھی اپنے اعلیٰ افسران کے سرینڈر کے باعث ناخوش ہیں اور اپنے ہتھیاروں سمیت پنجشیر کے پہاڑوں کا رخ کررہے ہیں۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ’یہ سب کافی نہیں ہوگا‘ اور ان کی فوجی طاقت اور ہتھیار طالبان کے کسی بڑے حملے کی صورت میں لڑائی کے لئے ناکافی ہوں گے۔
احمد مسعود نے امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے مدد کی اپیل بھی کی ہے۔
’طالبان اکیلے افغانوں کے لیے مسئلہ نہیں۔ طالبان کے کنٹرول میں افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا، جہاں سے ایک پھر جمہوریت کے خلاف سازشیں ہوں گی۔‘
انہوں نے امریکا اور اس کے جمہوری اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’آپ ہمارے لیے آخری امید ہیں۔‘