نیٹو اتحادی انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کو فعال رکھنے کے لیے کوشاں
طالبان نے کہا ہے کہ ’مستقبل میں درست دستاویزات رکھنے والے افغان کسی بھی وقت سفر کر سکتے ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)
نیٹو اتحادی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں کہ اگلے ہفتے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ امدادی سامان کی ترسیل کے لیے کھلا رہے۔
کابل ایئرپورٹ پر شدت پسند داعش نے جمعرات کو خود کش حملہ کیا جو کہ طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد بھاگنے والے ہزاروں افغانوں کے انخلا اور جنگ اور خشک سالی کے شکار ملک کے لیے امداد کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی نے کہا ہے کہ 31 اگست کے بعد کابل ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے تکنیکی مدد کی فراہمی کے لیے طالبان سے بات کر رہا ہے۔ تاہم انقرہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز ہونے والے بم دھماکوں نے ترکی کے لیے یہ ضروری بنا دیا ہے کہ وہ وہاں ماہرین کی تعیناتی کی صورت میں ان کی حفاظت کے لیے فوجی وہاں رکھے۔
ترکی نے یہ نہیں کہا کہ طالبان یہ شرط مانیں گے یا نہیں۔ جمعے کو ترک صدر طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ان کا ملک کابل کے لیے پروازیں چلانے کی جلدی میں نہیں ہے۔
لیکن امدادی کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ قحط سالی میں گھرے ملک کے لیے امداد پہنچانا بہت ضروری ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے واضح عندیہ دیا ہے کہ عالمی تنہائی سے بچنے کے لیے انہیں فعال کمرشل ایئرپورٹ چاہیے۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ ’ایک فعال ریاست، فعال معیشت اور باقی دنیا سے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے حکومت کو ایک فعال کمرشل ایئرپورٹ کی ضرورت ہوتی ہےَ ہم اس معاملے پر طالبان سے بات کر رہے ہیں۔‘
جمعے کو پینٹاگون نے کہا ہے کہ متعدد ممالک کابل ایئرپورٹ کو آپریشنل رکھنے کے لیے طالبان سے بات کرنے کے لیے راضی ہیں۔
یورپی یونین کے متعدد ممالک نے کابل سے اپنا انخلا مکمل کر لیا ہے اور امریکہ نے کہا ہے کہ پیر تک وہ باقی رہ جانے والے فوجیوں اور جنگی سامان کو ترجیح دے گا۔
جرمنی نے جمعرات کو انخلا کی پروازیں مکمل کیں تاہم اس کے افغانستان کے لیے سابق سفیر مارکوز پوٹزل قطر میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ایئرپورٹ کو 31 اگست کے بعد بھی فغال رکھنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے سیاسی کمیشن کے ڈپٹی ہیڈ شیر محمد عباس نے کہا ہے کہ ’مستقبل میں درست دستاویزات رکھنے والے افغان کسی بھی وقت سفر کر سکتے ہیں۔‘