کابل ایئرپورٹ پر مایوس خواتین، ’امریکیوں نے ہر افغان کی بے عزتی کی‘
کابل ایئرپورٹ پر مایوس خواتین، ’امریکیوں نے ہر افغان کی بے عزتی کی‘
ہفتہ 28 اگست 2021 9:15
افغانستان سے تعلق رکھنے والی شیرین تبرق ان سینکڑوں شہریوں میں سے ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے کابل انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے باہر اس امید میں ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید انہیں بھی بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 43 سالہ شیریں تبرق کا تعلق شمالی صوبہ فریاب سے ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ راتیں کابل ایئر پورٹ کے باہر گزارنے کے بعد اپنے گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایئر پورٹ پر موجود غیر ملکی افواج کے ’ہتک آمیز‘ رویے سے مایوس ہو کر انہوں نے افغانستان سے نکلنے کا منصوبہ ترک کر کے طالبان کی حکومت کے تحت زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شیریں تبرق نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نئی حکومت کے تحت رہنا چاہوں گی بجائے یہ کہ غیر ملکی مجھے کچرا سمجھتے ہوئے مجھ سے ایسا برتاؤ کریں۔‘
کابل ایئر پورٹ کے باہر بیٹھی ایک اور افغان خاتون شگفتہ دستگیر نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کے وعدوں سے مایوس ہو کر وہ اپنے گھر واپس جا رہی ہیں۔
شگفتہ دستگیر کا تعلق شمالی صوبے مزار شریف سے ہے اور پیشے کے اعتبار سے دائی کا کام کرتی ہیں۔
شیریں تبرق اور شگفتہ دستگیر کی کہانی ان ہزاروں افغان شہریوں کی عکاسی کرتی ہے جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
شیریں تبرق کے شوہر افغان حکومت میں ملازمت کرتے تھے لیکن فروری میں ملک سے فرار ہو کر پاکستان چلے گئے تھے۔ شیریں تبرق خود بھی ایک سکول میں پڑھاتی ہیں۔
شیریں تبرق کا کہنا ہے کہ امریکیوں نے ہر ایک افغان کی بے عزتی کی ہے۔
’میرا تعلق ایک باعزت خاندان سے ہے لیکن پانچ راتیں گلیوں میں گزارنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں ان سے بھیک مانگ رہی ہوں جن کے نزدیک بچوں اور خواتین کی کوئی عزت نہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کے مطابق 15 اگست سے ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کو کابل ایئر پورٹ سے نکالا جا چکا ہے۔
طالبان نے ملک پر قبضے کے بعد انسانی حقوق کے احترام کی یقین دہانی اور عام معافی کا اعلان کیا تھا تاہم طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور تشدد کے چند واقعات کے بعد شہریوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔
شیریں تبرق کا کہنا ہے کہ پاکستان سفر کرنے کے لیے ان کے تمام کاغذات مکمل ہیں لیکن غیر ملکیوں کے لیے مختلف قوانین ہیں جبکہ افغانوں سے کسی اور قانون کے تحت نمٹا جا رہا ہے۔
’کسی ایک شخص نے بھی کسی غیر ملکی کو نہیں روکا، میرے پاس بیرون ملک سفر کے تمام کاغذات موجود ہیں، مجھے امریکہ کیوں روک رہا ہے؟ یہ کون ہوتے ہیں کسی کو روکنے والے؟‘
پاکستان جانے کی تمام امید کھونے کے بعد شیرین تبرق نے فریاب واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
’میں نے فریاب میں اپنے گاؤں منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرے خیال میں ہم وہاں بہتر زندگی گزاریں گے۔ ہمارے پاس کاشتکاری کے لیے کچھ زمین جس پر ہم گندم اور کچھ پھل اگاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک کنواں بھی ہے۔ ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ امریکی واپس جا سکتے ہیں، امید ہے کہ میں کبھی انہیں اپنے ملک میں دوبارہ نہیں دیکھوں گی۔‘
شیریں تبرق کی طرح شگفتہ دستگیر نے ایئر پورٹ کے باہر چار دن اور تین راتیں گزارے۔ شگفتہ ایک جرمن این جی او کے ساتھ بطور مڈ وائف کام کرتی تھیں لیکن کورونا کیسز میں اضافے کے بعد این جی او بند ہو گیا۔
شگفتہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملوں میں اضافے کے بعد جولائی میں انہوں نے این جی او سے رابطہ کیا اور کابل میں جرمنی کے سفارتخانے کو بھی متعدد ای میل کیں کہ انہیں جرمنی منتقل ہونے کا موقع دیا جائے۔ لیکن کسی قسم کا جواب نہ آنے کی صورت میں شگفتہ کے والد انہیں شمالی شہر مزار شریف سے کابل لے کر آئے تاکہ انخلا کے آپریشن کے دوران شگفتہ کو بھی افغانستان سے نکل جانے کا موقع مل جائے۔
کابل ایئر پورٹ کے باہر افرا تفری اور ہنگامی صورتحال دیکھ کر وہ مایوس ہو گئی ہیں۔
’میں جلدی ہی مزار شریف واپس چلی جاؤں گی۔ میں نے ہمیشہ جرمنوں کو قدر سے دیکھا لیکن اب مجھے ان بیرونی طاقتوں کا دوسرا رخ دکھائی دے رہا ہے۔‘