Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 سعودی عرب اور عمان میں سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون کا سمجھوتہ

دونوں ملکوں نے عمان میں مفاہمتی یادداشت دستخط کیے ہیں۔(فوٹو ایس پی اے)
 سعودی عرب اور عمان نے سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون  کا سمجھوتہ کیا ہے۔مفاہمتی یادداشت  پر مملکت کی جانب سے  وزیر سرمایہ کاری انجینیئر خالد الفالح اور عمان کی جانب سے وزیر تجارت و صنعت قیس الیوسف نے دستخط کیے ہیں۔
سعودی، عمانی انویسٹمنٹ فورم پیر کو مسقط میں شروع ہوا ہے۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری انجینیئر خالد الفالح اور عمانی وزیر تجارت و صنعت و سرمایہ کاری قیس الیوسف،عمانی ایوان صنعت و تجارت کے چیئرمین رضا آل صالح شریک ہیں۔

سعودی، عمانی انویسٹمنٹ فورم پیر کو مسقط میں شروع ہوا ہے(فوٹو ایس پی اے)

سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی وزیر سرمایہ کاری  نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دیگر ملکوں کی طرح مملکت میں بھی اقتصادی معاملات بدل رہے ہیں۔ بین الاقوامی امداد کی ترسیل کی تشکیل نو ہورہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’توانائی اور اس کے سرچشموں میں بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ اور موسمی تبدیلیوں کا ہمیں سامنا ہے۔ سمارٹ ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ اب دنیا بھر کے ممالک وبا کے بعد کے دور کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں اور منصوبہ سازی کررہے ہیں‘۔ 
سعودی وزیر سرمایہ کاری کا کہنا تھا کہ ’سعودی وژن 2030 اورعمانی وژن 2040 نے اپنے یہاں مشترکہ حکمت عملی کے حوالے سے بہت سارے مواقع پیدا کیے ہیں۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے یہاں امکانات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں‘۔

سعودی عرب اور عمان میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع ہیں(فوٹو ایس پی اے)

خالد الفالح نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب اور عمان میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع ہیں۔دونوں ملکوں کے سرمایہ کار مختلف قسم کے منصوبے ایک دوسرے کی شراکت سے شروع کرسکتے ہیں۔ وژن 2030 کے تحت بارہ ٹریلین ریال تک کی سرمایہ کاری ہمارا ہدف ہے۔ 
عمانی وزیر تجارت قیس الیوسف نے کہا کہ ’ مملکت کے سرمایہ کار عمان میں سرمایہ لگائیں۔ عمانی سرمایہ کاروں کے ساتھ  مل کر پروگرام شروع کریں‘۔
  انہوں نے کہا کہ ’عمان میں سعودی سرمایہ کاروں کو وہی سہولتیں حاصل ہیں جو عمانی سرمایہ کاروں کو دی جاتی ہیں‘۔
فورم کے اجلاس میں مسقط میں متعین سعودی سفیر عبداللہ العنزی اور مملکت میں متعین عمانی سفیر کے علاوہ دونوں ملکوں کے سرکاری و نجی شعبوں کے اعلی عہدیدار اور سرمایہ کار موجود تھے۔ 

شیئر: