پنجشیر: لڑائی میں شدت،’حالات خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں‘
افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت آئی ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے پر برتری کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو ’خانہ جنگی‘ ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’میرے فوجی تخمینے کے مطابق جو حالات ہیں وہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ طالبان اپنی طاقت کو مستحکم کر کے گورننس قائم کر سکیں گے۔‘
جرمنی کی رمسٹیئن ایئر بیس سے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ اگر طالبان اقتدار پر قبضے کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو اگلے تین برس میں ’القاعدہ دوبارہ ابھر سکتی ہے یا داعش اور دیگر اس جیسے دہشت گرد گروپ پھیل سکتے ہیں۔‘
ادھر وادی پنجشیر پر کنٹرول کے لیے طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز میں لڑائی میں شدت کے بعد فریقین کے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق طالبان کے جنگجوؤں نے وادی پنجشیر پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا تاہم مخالف اتحاد نے اس کی تردید کی۔
طالبان رہنما جو اگلی حکومت میں تمام افغان دھڑوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں، نے تاحال عوامی سطح پر پنجشیر پر کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
طالبان مخالف احمد مسعود کے حامیوں کی فورس نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) نے کہا ہے کہ طالبان جنگجو پنجشیر اور کاپیسا صوبے کی سرحد کے درمیان دربند تک پہنچے تھے لیکن انہیں واپس دھکیل دیا گیا۔
این آر ایف کے ترجمان فہیم دشتی نے کہا کہ ’ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔‘
طالبان ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ پنجشیر میں لڑائی جاری ہے لیکن صوبائی دارالحکومت بازارک اور گورنر ہاؤس تک جانے والی سڑک پر بارودی سرنگوں کی وجہ سے پیش رفت سست ہوئی ہے۔