پاکستان کی سیاست نت نئے سیاسی نعروں سے عبارت ہے۔ اور یہ نعرے کبھی تو شعوری طور پر مہم کا حصہ بنائے جاتے ہیں یا حادثاتی طور پر وجود میں آجاتے ہیں۔ چاہے پیپلزپارٹی کا نعرہ ’روٹی کپڑا مکان ہو‘ یا تحریک انصاف کا ’نیا پاکستان‘ اور پھر مسلم لیگ ن کا ’ووٹ کو عزت دو‘ ہو، ہر نعرے کی اپنی الگ پہچان ہے۔
تاہم حالیہ سیاسی تاریخ میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک کیمپین ہے جس کا ن لیگ کے قائد نواز شریف اکثر اپنی تقاریر میں ذکر کر چکے ہیں، لیکن اس نعرے کے ساتھ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ ملک میں ہونے والے فوجی چھاؤنیوں کے بورڈز کے انتخابات میں یہ نعرہ استعمال نہیں کیا گیا۔
جب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت نے اقتدار سے باہر کیا اس وقت سے لے کر اب تک یہ پہلے عوامی انتخابات ہیں جہاں صرف ’کام کو ووٹ دو‘ کا نعرہ لگایا گیا۔
مزید پڑھیں
-
الیکشن اصلاحات اور سیاسی اختلافات: ماریہ میمن کا کالمNode ID: 599626
بظاہر کم اہمیت کے حامل کنٹونمنٹ بورڈز یا فوجی چھاؤنیوں کے بورڈز کے انتخابات 12 ستمبر کو ملک بھر میں ہوئے، جبکہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کی کامیابی نے ایک دفعہ پھر سیاسی پنڈتوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔
یہ انتخابات ہیں تو بلدیاتی نوعیت کے جن میں فوجی چھاؤنیوں کے سول انتظامی معاملات چلانے کے لیے یہاں کے رہائشی اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔
لاہور کینٹ میں آپ والٹن روڈ سے داخل ہوں تو الیکشن گزرنے کے دو دن بعد بھی ہزاروں کی تعداد میں بینرز اور اشتہار سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔
ان اشتہاروں اور بینرز میں آپ کو فوری طور پر جو چیز نظر آتی ہے وہ ہے مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان شیر اور اس پر لکھا ہوا ’کام کو عزت دو‘۔
امیدواروں کے بینرز اور تصاویر بھی بہت کم ہیں جس سے بظاہر نظر آتا ہے کہ ان انتخابات میں ن لیگ نے اپنی سیاسی حکمت عملی بدلی ہے۔

وارڈ نمبر دو سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار قاری حنیف سے جب اردو نیوز نے پوچھا کہ اس مرتبہ ان کی الیکشن کیمپین میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیوں نظر نہیں آیا؟
انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ہمیں تو جو قیادت حکم دے گی ہم نے وہی کرنا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ سعد رفیق صاحب کے حلقے کا ہے تو انہوں نے جو کہا ہم نے لکھوا دیا۔ ویسے بھی میں خود بھی کام کو ووٹ دو کے نعرے کا زیادہ قائل ہوں۔ کیوںکہ مسلم لیگ ن کا اصل ٹریڈ مارک تو کام ہی ہے۔ کیا آپ کو نہیں پتا کہ ہماری جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو کیسے خوشحالی شروع ہو جاتی ہے۔‘
قاری حنیف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ’آپ کو اس بات سے حیرت ہو گی بلکہ ہمیں بھی ہے کہ خواتین کے پولنگ بوتھس سے مسلم لیگ ن کے ووٹوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ نکلی ہے۔ یعنی جب عورتیں کسی جماعت کے خلاف ہو جائیں تو اسے شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور ویسے بھی جتنی مہنگائی ہے اور جو حالات ہیں کام کو ووٹ دو بہترین نعرہ ہے۔‘
شہروں میں فوجی چھاؤنیاں اس طرز پر ہیں کہ ان کے بڑے علاقے سول آبادی اور کاروباری مراکز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ گیریژن کے علاقوں میں امیدواروں کو اشتہار اور بیرنرز لگانے کی اجازت نہیں تھی۔
