چیئرمین نیب کی تعیناتی اور حکومت کی حکمت عملی: ماریہ میمن کا کالم
چیئرمین نیب کی تعیناتی اور حکومت کی حکمت عملی: ماریہ میمن کا کالم
پیر 20 ستمبر 2021 5:28
ماریہ میمن
حکومت ہر حال میں موجودہ چیئرمین کو ہی عہدے پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ (فوٹو: پی ٹی وی نیوز)
موجودہ چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت آٹھ اکتوبر کو پوری ہو رہی ہے۔ نیب کے قانون کے مطابق چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہے جو کہ non-extendable ہے یعنی موجودہ قانون کے مطابق اس کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
نئے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ایک با معنی مشاورت یا meaningful consultation ضرروی ہے۔
حکومت ہر حال میں موجودہ چیئرمین کو ہی عہدے پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ان کی کیا حکمت عملی ہوگی اور کیا کیا آپشنز ان کے پاس موجود ہیں؟ اور مجوزہ فیصلوں کے کیا سیاسی نتائج مرتب ہوں گے؟
سب سے پہلا آپشن قانون کے اندر موجود ہے اور وہ ہے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت۔
قانون کے مطابق موجودہ چیئرمین کے عہدے کی معیاد نہیں بڑھائی جا سکتی مگر دوبارہ تعیناتی کے آپشن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کسی اور امیدوار پر بھی غور ہو سکتا ہے۔ حکومت نے مگر واضح عندیہ دیا ہے کہ ان کا شہباز شریف سے مشاورت کا کوئی ارادہ نہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے شہباز شریف کو نیب کا ملزم قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی مشاورت کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قانون کے اندر تو حکومتی خواہش کے پورا ہونے کی گنجائش نہیں۔
دوسرا آپشن قانون میں بذریعہ آرڈنینس تبدیلی ہے جس سے مدت کو بڑھایا جائے گا اور یا پھر مشاورت کی شرط ختم کی جائے گی۔ اس سے قبل نیب کے چیف پراسیکیوٹر کے لیے آرڈینینس لا کر ان کی مدت بڑھائی گئی ہے۔
وہ آرڈیینس بھی اپنی مدت ختم ہونے کے بعد قانون نہیں بن سکا مگر ان کی مدت خیر بڑھ گئی۔ اسی عمل کو اس دفعہ دہرائے جانے کا امکان ہے۔
اس کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق چیئرمین نیب کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں اہم قانونی فیصلوں میں بھی تعطل آ جاتا ہے۔ مجوزہ آرڈیننس کے مطابق حکومت کی ایڈوائس پر صدر قانون میں تبدیلی کریں گے اور پھر حکومت ہی کی مزید ایڈوائس پر موجودہ چیئرمین کے عہدے کی مدت بڑھائیں گے۔
اس صورت میں اپوزیشن کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ اپوزیشن کو پہلے تو دیکھنا ہو گا کہ کیا حکومت آرڈیننس کو باقاعدہ قانون بنانے کے لیے اسمبلی میں پیش کرتی ہے کہ نہیں؟ اگر مقررہ مدت میں ایسا نہ ہوا اور آرڈیننس اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو گیا تو پھر اپوزیشن لیڈر کے پاس ایک ہی آپشن ہو گا اور وہ ہے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنا۔
اس سے پہلے ان کی اپنی جماعت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار دو چیئرمینوں کو سپریم کورٹ سے فارغ کرا چکے ہیں۔ اگرچہ اس وقت مدعا مشاورت کا تھا اور چوہدری نثار کے بقول ان سے بامعنی مشاورت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد چوہدری قمر الزمان اور جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی مشاورت سے عمل میں آئی۔ اب پھر معاملہ آخر میں سپریم کورٹ تک جاتا نظر آتا ہے اگر مشاورت کے بغیر آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کی گئی۔
حکومت کے پاس ایک تیسرا اور مشکل راستہ بھی ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ کے ذریعے نیب کے قانون میں تبدیلی۔ یہ مشکل اس لیے ہے کہ چونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں محدود اکثریت ہے اس لیے یہ قانون سازی صرف عہدے کی مدت تک محدود نہیں ہو گی بلکہ کئی دیگر شقیں بھی زیر بحث آئیں گی۔ اسی صورتحال کو حکومت این آر او کا نام دے رہی ہے۔
اس قسم کی ایڈجسمنٹ حکومت کے لیے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہو گی۔ یا تو پھر اس دفعہ بھی اس طرح کا اتفاق پیدا ہو جائے جس طرح فیٹف اور دیگر قوانین پر ہوا تھا مگر اس وقت فریقین کے مفادات کا اس طرح کا ٹکراؤ نہیں تھا جس طرح اب دیکھا جا رہا ہے۔
قانونی مضمرات کے علاوہ نیب چیئرمین کے عہدے کی معیاد بڑھانے کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے۔ اگر یہ تبدیلی مشاورت کے بغیر ہوئی تو اپوزیشن احتساب کے عمل کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھائے گی۔ اس کے نتیجے میں ن لیگ کا جارح گروپ احتساب اور نیب کو مزید چیلنج کرے گا۔
شہباز شریف جو پہلے ہی مفاہمت کی سیاست پر اعتراضات کے زد میں ہیں ان پر مزید دباؤ بڑھے گا۔ اور اگر چیئرمین نیب کے عہدے پر اختلافات کو الیکشن کمیشن پر اختلافات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو لگتا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا میچ سڑکوں اور جلسوں میں نہیں بلکہ اداروں اور ان کے سربراہوں پر ہو گا۔ آئینی اور قانونی اداروں پر اس طرح کے اختلافات کو سیاسی نظام کے لیے حوصلہ افزا نہیں کہا جا سکتا مگر آگے آنے والے دنوں میں یہ تفریق بڑھتی ہی نظر آتی ہے۔