’تھر کے بچوں کے لیے‘ سوات کا رحمان اللہ گھر سے دور
’تھر کے بچوں کے لیے‘ سوات کا رحمان اللہ گھر سے دور
بدھ 22 ستمبر 2021 6:35
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
سنہ 2015 میں جب تھرپارکر میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کی خبر عام ہوئی تو ملک کے طول و عرض سے فلاحی اداروں اور خیر خواہوں نے وہاں کا رخ کیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو مٹھی کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں نومولود بچوں کی نرسری بنیادی سہولیات تک سے محروم تھی۔
کراچی کے ایک فلاحی ادارے نے مخیر افراد کے تعاون سے وہاں نرسری کو فعال کیا، لیکن ضلعی سرکاری ہسپتال میں بچوں کے انتہائی نگہداشت وارڈ کے لیے کوئی پیرا میڈیکل سٹاف موجود نہ تھا۔ ایسے میں کراچی سے ایک تجربہ کار نرس رحمان اللہ کو ذاتی خرچ پر ایک مہینے کے لیے وہاں بھیجا گیا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے رحمان اللہ کو شروع میں یہی کہا گیا کہ وہ نرسری کو فعال کر کے مٹھی ہسپتال کے پیرا میڈیکل سٹاف کو تربیت دے کر واپس آ جائیں، لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن۔ پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا رحمان اللہ چاہتے ہوئے بھی مٹھی کی نرسری چھوڑ کر واپس نہیں آ سکے.
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے آج تک اس نرسری کو چلانے کا انتظام اور تربیت یافتہ عملے کا بندو بست نہیں ہو سکا۔
سوات کی تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والے رحمان اللہ 2005 میں بہتر تعلیم اور نوکری کے لیے کراچی گئے، اور وہاں انہوں نے نرسنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پرائیویٹ ہسپتالوں میں نوکری شروع کر دی۔ دوران سروس ہی انہوں نے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ڈیوٹی سے متعلق اضافی کورس کیے اور بلقیس ناز ہسپتال کے پیڈز وارڈ میں نوکری جاری رکھی۔
تھرپارکر میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے ہولناک خبریں منظر عام پر آنے کے بعد کراچی کے کچھ مخیر حضرات نے ڈاکٹر فیاض عالم کی سربراہی میں تھرپارکر کی تحصیلوں کا فوری دورہ کیا۔
مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے دورے میں اس وفد نے دیکھا کہ وہاں نوزائیدہ بچوں کی نرسری میں آکسیجن جیسی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق ’وہاں ایک دو انکیوبیٹر تو تھے، لیکن انہیں چلانے کے لیے کوئی تربیت یافتہ سٹاف نہیں تھا، سو بیکار پڑے تھے۔‘
ڈاکٹر فیاض نے بتایا کہ ڈی ایچ کیو کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ سے جب بچوں کی نرسری کو فعال کرنے کے لیے امداد کی بات کی گئی تو انہوں نے فوراً حامی بھر لی، اور اجازت دے دی، تاہم بتایا کہ ان کے پاس انتہائی نگہداشت وارڈ کے لیے پیرامیڈیکل سٹاف موجود نہیں۔ ’ہم نے کراچی سے تربیت یافتہ سٹاف لانے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے واپس آ گئے۔ ابتدائی طور پر ارادہ یہی تھا کہ چند ہفتوں کے لیے نرس درکار ہوگا، پھر وہاں ہسپتال کوئی بندوبست کر لے گا، یہی سوچ کر ہم نے رحمان اللہ کا انتخاب کیا اور اسے وہاں جانے پر آمادہ کیا۔‘
رحمان اللہ کا کہنا ہے کہ وہاں اکیلے رہنا خاصا مشکل عمل تھا، انہیں سندھی زبان بھی نہیں آتی، شروع میں تو وہ اکیلے میں روتے بھی تھے۔ ’میں نے شروع میں اپنے آپ کو ہمت دلائی کہ بس ایک مہینے ہی کی تو بات ہے، لیکن مہینے بھر میں چیزیں ٹھیک نہ ہوئیں تو مجھے تین مہینوں تک رکنے کا کہا گیا، پھر ایک سال۔۔۔ کرتے کرتے اب ساڑھے پانچ سال گزر چکے۔ میں اسی بچوں کی نرسری سے منسلک ہوں۔‘
جب 2015 میں رحمان اللہ تھرپارکر آئے تھے تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، بعد ازاں اسی سال کے آخر میں ان کی شادی ہوئی۔ جب وہ اپنے گاؤں گئے تو گھر والوں نے بہت روکا کہ واپس تھر جانے کی ضرورت نہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی نرسری کا انتظام ان کے بغیر مشکل میں پڑ جائے گا، وہ جلد ہی واپس آئیں گے۔
دوسری جانب، تھرپارکر میں غربت اور غذائی قلت کے باعث خواتین اور نوزائیدہ بچے کمزوری کا شکار ہیں۔
رحمان اللہ کا کہنا ہے کہ گاؤں دیہات میں لوگ بچوں کی پیدائش کے لیے دائی سے ہی رجوع کرتے ہیں، جب کوئی پیچیدگی ہو جاتی ہے تو ہسپتال لایا جاتا ہے۔
ایمبولینس ٹرانسپورٹ کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے بچے راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے۔ غذا کی قلت، موثر طبی سہولیات کا فقدان اور علاج معالجے کی بروقت سہولت نہ ہونا تھرپارکر میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی بنیادی وجہ ہے۔‘
پانچ سال سے زائد عرصے سے تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر کے ہسپتال کا نظام دعا فاؤنڈیشن اور ہیلپینگ ہینڈز فاؤنڈیشن چلا رہی ہیں۔ اس عرصے میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر صوبائی وزرا نے بھی ہسپتال کے دورے کیے تاہم اتنے عرصے میں ہسپتال نے نرسری کو سرکاری سطح پر چلانے کا انتظام نہیں کیا۔
ہر سال کے اختتام پر ڈی ایچ کیو مٹھی کی جانب سے دعا فاؤنڈیشن کو مراسلہ تحریر کر دیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ رحمان اللہ اور ادارے کی خدمات ہسپتال کی نرسری کو چلانے کے لیے ناگزیر ہے، اور ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ تھرپارکر کے بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنی خدمات جاری رکھیں۔
تھرپارکر کے ان بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے سوات کا رحمان اللہ اپنے بچوں اور گھر والوں سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔