لاہور ہائی کورٹ کا خاتون کو فرضی باپ کا نام دے کر نادرا کو شناختی کارڈ بنانے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ کا خاتون کو فرضی باپ کا نام دے کر نادرا کو شناختی کارڈ بنانے کا حکم
جمعرات 23 ستمبر 2021 21:46
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
عدالت کے حکم پر نادرا نے شناختی جاری کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ فوٹو وکیپیڈیا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے ایک مقدمے میں انوکھا فیصلہ سناتے ہوئے نادرا کو ایک ایسی خاتون کا شناختی کارڈ بنانے کاحکم دیا ہے جن کے حقیقی والدین کا کسی کو علم نہیں۔
زرمین عابد نامی ملتان کی رہائشی خاتون نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ کہ نادرا نے ان کا شناختی کارڈ کینسل کر دیا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے حقیقی والدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتی البتہ وہ صرف اپنی رضاعی ماں زرسنگہ ناصر کو جانتی ہیں جن کے پہلے شوہر کا نام عابدالرحمان تھا۔
اپنی پیٹیشن میں انہوں نے بتایا کہ ان کے فارم ب اور تعلیمی اسناد پر والد کی جگہ رضاعی والدہ کے شوہر عابدالرحمان کا نام درج تھا۔
اپنی کہانی میں وہ عدالت کو بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے کر ناصر احمد نام کے کسی دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ جس کے بعد نادرا میں ان کے خاندانی ریکارڈ کر تبدیل کر کے والد کی جگہ ناصر احمد کا نام لکھ دیا گیا۔
تاہم ناصر احمد نے نادرا میں درخواست دے دی کہ زرمین ان کی بیٹی نہیں ہیں لہذا وہ اپنے شناختی کارڈ پر ان کا نام استعمال نہیں کر سکتیں۔
نادرا نے ناصر احمد کی درخواست مانتے ہوئے زرمین کا شناختی کارڈ یک طرفہ طور پر بلاک کر دیا۔ جس پر انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج شان گل نے خاتون کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’شناخت چھن جانے کے بعد زرمین عابد کی حالت ایسی ہے جیسے بلیوں کے درمیان کسی کبوتر کو چھوڑ دیا جائے۔ وہ غیر محفوظ ، کمزور ہو چکی ہیں اور ان کا استحصال کیا جانا آسان ہوگیا ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ ان کی والدہ کے نئے شوہر ناصر احمد نے نادرا کو ایسا کرنے کو کیوں کہا۔ لیکن نادرا نے بھی خاتون کو سنے بغیر خوشی خوشی ان سے ان کی شناخت چھین لی۔‘
اس کے بعد عدالت نے شناخت کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں خواجہ سراؤں کو بھی شناخت کا حق دیا گیا جن کے والدین کا کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے ان کو شناخت دی۔‘
لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’اس بچی کے والدین کا کسی کو کچھ پتا نہیں نہ ان کی رضاعی ماں کو۔ جب کہ ان کی تعلیمی اسناد، فارم ب، بینک اکاونٹ، ہر جگہ پر والد کی جگہ عابد الرحمان کا نام لکھا ہے۔ بچی کی اس نام کے ساتھ یادیں ہیں اس کے لیے یہی باپ کا نام ہے۔‘
اس کے بعد عدالت نے نادرا کوحکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ زرمین عابد کو فل فور نیا شناختی کارڈ جاری کیا جائے اور اس کے باپ کے نام کی جگہ عابدالرحمان لکھا جائے۔ لیکن یہ وہ عابد الرحمان نہیں ہوگا جو ان کی رضاعی والدہ کا پہلا شوہر تھا۔ بلکہ یہ عابد الرحمان ایک تصوراتی نام ہے۔ جس سے اس بچی کی یادیں جڑی ہیں۔‘
ڈی جی نادرا نے عدالت کے روبرو زرمین عابد کا شناختی کارڈ بنانے کی ہامی بھی بھری جسے عدالت نے سراہا۔
عدالت نے قرار دیا کہ براہ راست شناخت کے حق کے بارے میں آئین پاکستان خاموش ہے لیکن تمام بنیادی انسانی حقوق جن کی آئین گارنٹی دیتا ہے وہ شناخت کے بعد ہی شروع ہوتے ہیں۔ لہذا شناخت بھی بنیادی انسانی حق ہے۔ اس کے بغیر نہ تو انسان کوئی کام کر سکتا ہے جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکے نہ سفر کر سکتا ہے۔ نہ ہی ریاست سے کوئی شہری حقوق طلب کر سکتا ہے۔‘