دنیا بھر کے نامور شخصیات کے مالی امور کی تحقیقات ’پنڈورا پیپرز‘ جاری ہونے سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی کوئی آف شور کمنپی نہیں ہے۔
اتوار کو فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’پرائم منسٹر کی کوئی آف شور کمنپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسے کام کرتے ہیں۔‘
شہباز گِل کا کہنا تھا کہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش دور کر لیں، ملک میں ایک ہی لوگ ہیں جو باہر کمپنیاں بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ لندن تو کیا پاکستان میں بھی جائیداد نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
-
امریکی لابنگ فرم کو اربوں روپے ادائیگی کی تحقیقاتNode ID: 378326
-
پاناما لیکس میں شامل مزید افراد کو تلاش کرنے کا حکمNode ID: 389221
-
’پنڈورا پیپرز‘:عالمی شخصیات سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کے نام شاملNode ID: 605741
شہباز گِل نے کہا ہے سب کو اپنا جواب خود دینا ہے۔
’وزیراعظم کی اولاد نہیں ہے سارا ملک، اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کی پرورش انہوں نے کہ ہے۔ سب نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اگر کوئی وزیر کرپشن کرے گا تو جواب دے گا ، کوئی پی ٹی آئی کا کرے گا وہ بھی جواب دے گا، ن کا کرے گا وہ بھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ہم غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ’ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ وزیراعظم کے گھر کا پتا جو ہے وہ دو زمان پارک ہے اور پوچھا کہ انہوں نے باہر کوئی کمپنی رجسٹر کروائی ہے اور فلاں شخص کے نام پر کروائی ہے۔‘
شہباز گل نے کہا کہ ’جو بات صحافی کو بتائی وہ میڈیا کے ذریعے بتانا چاہتا ہوں کہ زمان پارک ایک ایسی کالونی ہے جس کو دو طرف سے راستہ گیا ہے۔ ایک نہر کی طرف سے اور ایک سندر کی طرف سے۔ ہمارے بہت سے صحافیوں کو یہ لگا کہ شاید یہ ایک ہی گھر ہے یا شاید یہ ایک پلاٹ ہے جس کے دو حصے ہیں۔ یا ایسا پلاٹ جس کے اس طرف سندر اور اس طرف کینال ہے۔‘
’میں واضح کر دو کہ دو مختلف داخلی راستوں کے اوپر دو زمان پارک کے پتے ہیں، مطلب دو گھروں کا ایک ہی پتا ہے اور یہ دونوں گھر ایک دوسرے سے کم و بیش آدھے سے پونا کلومیٹر دور ہے۔ میں پھر سے دوہرا دوں کہ یہ نہ کبھی اکھٹے تھے،نہ یہ کبھی آگے پیچھے تھے۔‘

’یہ جن صاحب کے نام کی کمپنیاں ہیں وہ اپنے کاروبار کا خود جواب دیں گے نہ وزیراعظم کی ان سے ملاقات ہوئی، کسی شادی میں ہوگئی ہو، تقریب میں ہوئی ہو، براہ راست ملاقات نہیں ہوئی۔ وزیراعظم ذاتی طور پر ان کو نہیں نہیں جانتے۔‘
آف شور کمپنیوں کے حوالے سے شوکت ترین کا بیان
پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے ان کی آف کمپنیوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب میں تسلیم کیا ہے ان کمپنیوں سے ان کا براہ راست یا اپنے خاندان کے افراد کے ذریعے تعلق رہا ہے اور اس کا مقصد اپنے بنک کے لیے سرمانہ جمع کرنا تھا۔
Our most expansive exposé of financial secrecy yet is coming tomorrow at 12:30 p.m. EDT, 4:30 p.m. GMT.
The #PandoraPapers is based on a leaked dataset of more than 11.9 million files covering every corner of the globe.
Sign up to our newsletter here: https://t.co/UDy2dcd8OJ pic.twitter.com/qOkyAY3rS2
— ICIJ (@ICIJorg) October 3, 2021
انہوں نے کہا کہ ’ان کمپنیوں کا مقصد میرے بینک کے لیے سرمایہ کاری تھا۔ہم مشرق وسطیٰ کے ایک گروپ کے ساتھ اپنے بینک کے لیے سرمایہ جمع کرنے کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔ مجوزہ سرمایہ کار نے بینک میں سرمایہ کاری کے لیے مرکزی بینک سے اصولی منظوری بھی لی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کمپنیوں کے ذریعے کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی بینک میں ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس کھولے گئے۔
خیال رہے کہ ’پنڈورا پیپرز‘ کی تحقیقات کرنے والے ادارے انٹر نیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلٹس (آئی سی آئی جے) کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ‘جلد ہر کوئی پنڈورا پیپرز کے بارے میں بات کرنے لگے گا۔ ہماری نئی تحقیق، جو کہ مالیاتی رازوں کے بارے میں اب تک کی سب سے مہنگی تحقیق ہے، اتوار کو جاری ہوگی۔ دنیا کے 117 ممالک کے میڈیا کے 150 اداروں کے 600 سے زائد صحافیوں کی رپورٹنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
بین الاقوامی تحقیق ’پنڈورا پیپرز‘ ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے سینکڑوں افراد کے نام ہے جن میں سیاستدان، بیوروکریٹس اور طاقتور شخصیات شامل ہے۔
’پنڈورا پیپرز پاناما کی طرح شفافیت کے نئے راستے کھولیں گی‘
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ امید ہے کہ پنڈورا پیپرز پاناما کی طرح شفافیت کے نئے راستے کھولیں گی اور کرپشن کی حوصلہ شکنی کا سبب بنے گی۔
اتوار کو ایک ٹویٹ میں فواد چودھری نے کہا کہ پاناما پیپرز نے دنیا کے بڑے کرپٹ لوگوں کے بیرون ملک چھپائے اثاثوں کو بے نقاب کیا، اب کہا جا رہا ہے کہ آئی سی آئی جے کی ایک اور تحقیق سامنے آ رہی ہے۔
’عمران خان نے امیر ملکوں پر زور دیا ہے کہ غریب ملکوں سے چرایا گیا پیسہ امیر ملکوں میں چھپانے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔‘
