ان حملوں کے بعد گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ہلاک ہونے والی حوثیوں کی تعداد بڑھ کر تقریباً ایک ہزار ہوگئی ہے۔
حوثیوں نے فروری میں مارب پر قبضہ کرنے کی کوششیں تیز کردی تھیں۔ مارب شہر یمن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا ملک میں آخری گڑھ ہے۔ حوثیوں نے کچھ عرصے کے وقفے کے بعد حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر حملوں کا آغاز کیا ہے۔
العابدیہ میں خاص طور پر تقریباً 35 ہزار شہریوں کے لیے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیونکہ حوثیوں نے اس علاقے کا محاصرہ کر لیا ہے اور کھانے، پانی، ادویات اور دیگر اشیائے ضرورت کے شہر میں پہنچائے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
حوثیوں نے العابدیہ سے قبضہ ہٹانے کے امریکی مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور مقامی افراد کے خلاف حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ حوثیوں نے گھر گھر جا کر ان مقامی جنگجوؤں اور فوجیوں کو تلاش کیا ہے جو ان کے قبضے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مارب میں سول اورینٹیشن پروٹیکشن آرگنائزیشن نامی ادارے کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے گھروں پر چھاپے مارے، کئی زخمی افراد کو اغوا کیا اور گاڑیوں اور گھر کی اشیا سمیت ذاتی پراپرٹی چھیننے کے علاوہ فصلوں کو بھی آگ لگائی ہے۔‘
حکومت کے اندرونی طور پر بے گھر افراد کے لیے قائم خصوصی یونٹ کا اتوار کو کہنا تھا کہ رہنے کی جگہوں، کھانے اور ادویات کی قلت کے باعث 20 ہزار سے زائد شہریوں نے مارب اور شبوا صوبوں کو چھوڑ کر مارب شہر میں پناہ لی ہے۔
یونٹ کا مزید کہنا تھا کہ کئی خاندان اب بھی محاصرے میں رہ رہے ہیں اور امداد میں کمی کے باعث ان کے حالات زندگی مزید خراب ہورہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ نے کشیدگی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ ’ہم حوثیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مارب میں حملے بند کریں اور یمن بھر سے کیے جانے والے مطالبات کو سنیں تاکہ اس نتازع میں کمی لائی جا سکے۔‘
یمن میں امریکی سفارتکار ٹم لینڈرکنگ نے بھی مارب میں انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔