حالیہ چند ہفتوں میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس میں غیر ریاستی ورکرز کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عسکریت پسندوں کے تازہ حملوں کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز نے متنازع ریاست کے مختلف حصوں میں کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ان واقعات میں 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر میں تشدد میں اضافہ، مزید دو انڈین فوجی جھڑپ میں ہلاکNode ID: 609626
واضح رہے کہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا دونوں اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے حصوں کو دونوں ممالک کنٹرول کرتے ہیں۔ کشمیر میں 1990 کی دہائی سے انڈیا کے خلاف مسلح تحریک جاری ہے۔
تازہ واقعات کی نوعیت کیا ہے؟
کشمیر میں ٹارکٹ کلنگ کی اس نئی لہر وادی میں موجود غیر کشمیری افراد اور ہندو اور سکھ اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سری نگر شہر میں ایک ہندو اور ایک سکھ استاد کو سکول میں قتل کر دیا گیا تھا۔
مشتبہ عسکریت پسندوں نے چھ اکتوبر کے بعد سے مجموعی طور پر 11 شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔
ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے؟
انڈیا کے سکیورٹی عہدے داروں نے کہا ہے کہ شہریوں کے قتل کے ان واقعات میں ملوث کچھ افراد کا تعلق ’دی ریزسٹنٹ فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) سے ہے جسے وہ تنظیم لشکر طیبہ نامی پاکستانی جہادی جماعت اور مقامی عسکریت پسندوں پر مشتمل تنظیم حزب المجاہدین کا ایک فرنٹ قرار دیتے ہیں۔
انڈیا نے پاکستان پر کشمیر میں دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا ہے جس کی پاکستان کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتا ہے۔
خیال رہے کہ اگست 2019 میں انڈیا کی حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے جموں کشمیر اور لداخ ٹریٹریز میں بدل تقسیم کر کے براہ راست دہلی کے تحت کر دیا تھا۔
دی ریزسٹنٹ فرنٹ اگست 2019 میں اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب اںڈیا کی حکومت کے نئے فیصلے کے بعد کشمیر میں ناراضی کی فضا قائم ہوئی۔
تاہم رواں ماہ کے شروع میں دی ریزسٹنٹ فرنٹ کی جانب سے ایک سوشل میڈیا بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو ان کی مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہیں بناتے ، وہ صرف ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو انڈین حکام کے لیے کام کرتے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق ٹی آر ایف کے اس سوشل میڈیا بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
حملوں پر انڈین فورسز کا ردعمل
کشمیر میں ہونے والے ان تازہ حملوں کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا اور پوری وادی میں مختلف آپریشنز کے دوران 13 جنگجو ہلاک کیے۔
گزشتہ ہفتے سری نگر میں دو سکول ٹیچرز کے قتل کے بعد پولیس نے 300 سے زائد افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا اور ان میں سے بیشتر کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔
حراست میں لیے گئے ان افراد میں مذہبی تنظیم جماعت اسلامی، حریت کانفرنس کے ارکان اور عسکریت پسندوں سے ماضی میں تعلقات رکھنے والے افراد شامل تھے۔
گزشتہ ہفتے کشمیر کے جموں ریجن میں انڈین فوج کی عسکریت پسندوں کی جھڑپوں کے نتیجے میں 9 فوجی ہلاک ہو گئے تھے جو کہ حالیہ برسوں میں کسی ایک آپریشن میں ہونے والی فوج کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
تشدد کی نئی لہر کے اثرات کیا ہوں گے؟
کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات نے آبادی کے بعض حصوں کو شدید اضطراب سے دوچار کیا ہے اور اس کے بعد اقلیتی ہندو مذہب سے وابستہ لوگ اور غیر ریاستی ورکز وادی کشمیر چھوڑ پر جموں اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات کی مذمت کی ہے اور نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھائے ہیں۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ’ کوئی بھی شہری مرنے کا حق دار نہیں ہے۔ میں حیران ہوں کہ انڈیا کی حکومت کو یہ سمجھنے میں کیا رکاوٹ ہے کہ ان کی جموں کشمیر سے متعلق پالیسیاں ناکام ہوچکیں اور ان کی قیمت کیا ہے۔‘
There are no words strong enough to condemn the repeated barbaric attacks on innocent civilians. My heart goes out to their families because they leave the comforts of their homes to earn a dignified livelihood. Terribly sad https://t.co/2sDl38XuE4
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) October 17, 2021