پاکستان کے پاپ گلوکار علی عظمت کے ملکہ ترنم نور جہاں کے بارے میں ایک یوٹیوب چینل کو دیے گئے بیان پر کچھ دن سے سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ برپا ہے۔
کچھ صارفین ان کی رائے سے اختلاف کرتے رہے تو کچھ کو ان کی رائے کے اظہار کے انداز پر اعتراض تھا۔
تاہم اب علی عظمت نے سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد اپنے یوٹیوب چینل پر وضاحتی ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اس ’کانٹروورسی‘ پر کھُل کر اپنا موقف بیان کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’امیر ہونا غریب ہونے سے زیادہ مشکل‘، روحیل حیات کا ’فلسفہ‘Node ID: 611176
پانچ منٹ پندرہ سیکنڈ کی اس ویڈیو میں علی عظمت کہتے ہیں کہ ’میں موٹرسائیکل پر سفر میں ہوں اور پیچھے سے نور جہاں بمقابلہ علی عظمت سین بنا دیا گیا۔ میرے بھائی احمد علی بٹ نے بھی کچھ لکھا، میں ان سب کو بہت پیار کرتا ہوں عزت کرتا ہوں اور اس سے زیادہ عزت میں کرتا ہوں نور جہاں صاحبہ کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو پوائنٹ آف ویو آپ نے نہیں سنا جن صاحب نے بھی یہ ویڈیو ایڈٹ کر کے لگائی ہے اور صرف ایک حصہ لگایا ہے جس میں کہا گیا کہ نور جہاں بُندے پہن کر آ جاتی تھی اور ہم دیکھتے تھے تو یہ بات بالکل سچ ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے اس وقت ہمارے لیے صرف پی ٹی وی ہوتا تھا اور جو ڈسکشن چل رہی تھی وہ یہ تھی کہ کیا مغربی میوزک ہمارے کلچر کا حصہ ہے یا نہیں۔‘
’تو ان کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ مغربی کلچر ہمارے کلچر کے اندر سرایت کر چکا ہے، مغربی کلچر کا ہم حصہ ہیں۔ یہ جنون ہو یا وائٹل سائنز یہ مغربی میوزک ہی تھا۔‘
علی عظمت نے کہا کہ ’پی ٹی وی جو ہمارا عوامی ٹیلی ویژن تھا ان کی پریزنٹیشن اتنی بُری تھی۔ ظاہری بات ہے ہمیں اس وقت پتا ہی نہیں تھا گائیکی کیا چیز ہوتی ہے۔ یہ بات میں اس وقت کی کر رہا تھا جب میں سات، آٹھ نو یا دس سال کا ہوں گا۔ ہمیں دیکھنے کو جو ملتا تھا ہم آواز تک تو پہنچ ہی نہیں سکے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ظاہری بات ہے جب بڑے ہوئے تو ہم سے بڑا نور جہاں کا فین ہی کوئی نہیں ہے۔ یہ بات آپ کو بشریٰ انصاری صاحبہ بھی آپ کو بتائیں گی کہ ان کے کیا کیا گانے کن کن جگہوں پر انجوائے کرتے ہیں۔ ان کے گانا گانے کی ادائیگی کا موازنہ ہی ممکن نہیں، ہم تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔‘
انہوں نے اپنی نور جہاں کے ساتھ ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یاد ہے میں ایک بار میڈم نور جہاں کو ملنے گیا وہ کافی بیمار تھیں تو نازیہ نے بڑے پیار سے کہا امی میرا ایک دوست آیا ہے آپ سے ملنے کے لیے اور میں گیا تو انہوں نے کہا یہ گلوکار ہیں جنون کے یہ بڑا اچھا گاتے ہیں۔ تو میڈم نے بڑے غصے میں کہا کہ ’ہونہہ، اے کی گاندا ہوئے گا اینوں کہہ نا فلاناں گانا گا کے سنائے‘۔ (یہ کیا گاتا ہوگا اسے کہو نا کہ فلاں گانا گا کے سنائے۔‘)
علی عظمت کے بقول ’یہ ان کی اپنائیت تھی، ان کا ایک طریقہ کار تھا، وہ بھی اسی طرح کی تھیں جس طرح میں ہوں دبنگ تھیں جو ان کے دل میں آتا تھا بولتی تھیں۔ میں نے جو اپنی کیفیت جو بتائی تھی وہ چھ سات آٹھ سال کی تھی۔ ہمارے والدین ایسے جڑ کر دیکھتے تھے ٹی وی کہ نور جہاں کا فلاں گانا آگیا او مائی گاڈ اور ہم کہتے تھے وٹس دی بگ ڈیل۔ ہمیں تو بالکل سمجھ نہیں آ رہی یہ تو کوئی آنٹی ہیں۔‘
انہوں نے اُس دور کی جدید موسیقی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں جو پہلی چیز نوجوانوں کے دماغوں کے لیے متاثرکن نظر آئی تھی وہ نازیہ حسن ذوہیب حسن تھے یا عالمگیر یا شیکی تھی کہ تھوڑی سی جدید موسیقی تھی اور ہم نے کہا کہ ہاں یار یہ جو مغربی کلچر میں ہم جو موسیقی سنتے ہیں یہ بھی اس کے قریب قریب بجا رہے ہیں۔‘
’نور جہاں کا اتنا پکا راگ، اتنی خوبصورت ادائیگی اور ان کی آواز اور ان کی خوبصورتی ہمیں تو کچھ اس کے بارے میں نہیں پتا تھا۔ وہ ہمارا میوزک کے ساتھ پہلا تعارف تھا جسے اس عمر میں ہم نے ریجیکٹ (مسترد) کیا۔‘
Being a Junoon fan, i am embarrassed... pic.twitter.com/qt36TzE7Ye
— فاطمہ عرفان (@fatimairrfan) October 19, 2021