دو سو 20 کنال پر بنا 18 سو بیڈز پر مشتمل پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال 1927 سے نہ صرف اس شہر کے باسیوں بلکہ پاکستان کے تقریباً تمام شمال مغربی علاقوں اور افغانستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی صحت کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
آج کے پشاور کے سب سے بڑے اور جدید اس ہسپتال کی بنیاد ایک حادثے سے پڑی تھی جب اس وقت کے برصغیر کے وائسرائے لارڈ روفس آئزکس ریڈنگ کی پہلی زوجہ ایلس ایڈتھ آئزکس (لیڈی ریڈنگ) گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئی تھیں۔
پشاور کی تاریخ پر کتاب ’پشاور ماضی کے دریچوں میں‘ کے مصنف تاریخ دان ابراہیم ضیا نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1921 میں جب روفس آئزکس کی ہندوستان بطور وائسرائے تعیناتی ہوئی تو ان کی اہلیہ لیڈی ریڈنگ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باجود اپنے شوہر کے ہمراہ ہندوستان منتقل ہوگئیں اور 1926 تک ہندوستان میں رہیں۔
ان پانچ سالوں میں لیڈی ریڈنگ برصغیر کے مختلف دورآفتادہ علاقوں کے دوروں پر جاتیں اور وہاں پر ضرورت کے مطابق فلاح و بہبود کے کام کرتیں۔
ابراہیم ضیا کے مطابق ’جب لیڈی ریڈنگ پشاور کے دورے پر آئیں تو وہ گھوڑے پر شہر کی سیر کو نکلیں۔ اندرون شہر سے گزرتی ہوئی وہ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئیں جس پر انہیں قریبی سرکاری ہسپتال، ایجرٹن، لے جایا گیا۔ جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ مقامی لوگوں کے لیے شہر میں ایک بڑا ہسپتال بنانا ضروری ہے۔‘
ابراہیم ضیا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لیڈی ریڈنگ ایسی جگہ ہسپتال بنانا چاہتی تھیں جہاں لوگوں کی رسائی آسان ہو۔ سو اندرون شہر کے علاقوں قلعہ بالا حصار، قصہ خوانی بازار، آسمانی گیٹ، صرافہ بازار اور خیبر بازار کے وسط میں جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ماضی میں افغانستان، وسط ایشیا اور ہندوستان سے تاجروں کے قافلے آتے اور یہاں پر آرام کرتے تھے۔‘
ہسپتال کے قیام کا فیصلہ تو ہو گیا تاہم اس کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کی ضرورت تھی۔ جس کے لیے لیڈی ریڈنگ نے خود ہی چندہ مہم بھی شروع کر دی۔
وہ اپنے خاوند کے ہمراہ مختلف مخیر حضرات کے پاس جاتیں اور ان سے چندے کی اپیل کرتیں، اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں میلے اور اعلانات منعقد کیے جاتے تھے جبکہ دورافتادہ علاقوں کے لوگوں کو خطوط بھی لکھے جاتے تاکہ فنڈز کی فراہمی ممکن ہوسکے۔
ابراہیم ضیا نے بتایا کہ 1924 میں پانچ سو سے زیادہ چندہ دینے والے افراد کے نام ایک ڈونیشن بورڈ پر لکھے جاتے جو آج بھی بولٹن ہال میں موجود ہے اور اس بورڈ پر سب سے پہلا نام لیڈی ریڈنگ کا ہے جنہوں نے سب سے زیادہ 50 ہزار کا چندہ دیا تھا۔
رقم کی دستیابی کے ساتھ ہی 1924 میں اس ہسپتال کا تعمیراتی کام شروع ہوا اور تین سال بعد یعنی 1927 میں مکمل ہو گیا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال تاریخ اور جدید دور کا امتزاج
اپنے قیام کے بعد سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال خطے کے لاکھوں افراد کے لیے حفظان صحت کا مرکز رہا ہے۔ گذشتہ دہائی میں جب یہاں دہشت گردی عروج پر تھی تو یہی فرنٹ لائن ہسپتال تھا اور بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے زخمیوں کو یہیں سے طبی امداد فراہم کی جاتی تھی۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق ’1927 میں بننے والے جرنیلی ہسپتال سے مشہور یہ ہسپتال آج بھی خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے دوردراز علاقوں اور افغانستان سے کافی تعداد میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
1927 میں جب اس ہسپتال کا تعمیراتی کام مکمل ہوا تو اس وقت اس کے بولٹن ہال میں 150 بستروں کی گنجائش تھی جبکہ آج یہاں 18 سو بیڈز کی سہولت موجود ہے۔ ہسپتال میں آرتھوپیڈک، سرجری یونٹ، گائنی، پیڈز اور صوبے کا واحد نیرو سرجری یونٹ کام کر رہے ہیں۔ جہاں روزانہ تقریباً چھ ہزار مریض آتے ہیں۔
محمد عاصم نے بتایا کہ 2020 میں نئی بلڈنگ، 500 مزید بیڈز اور جدید مشینری کا اضافہ ہوا جس کے بعد ہسپتال میں 25 آپریشن تھیٹرز، انٹرنیشنل ریڈیالوجی اور جدید دور کی دیگر تمام طبی سہولیات موجود ہیں۔
’اب مریضوں کی وہیل چیئرز اور سٹریچرز خصوصی پورٹرز ایمرجنسی سے آپریشن تھیٹر اور وارڈ تک لے کر جائیں گے نہ کہ مریض کا اٹینڈینٹ۔ اسی طرح ہسپتال کے اندرآمدورفت کے لیے ریچارجبل ایمبولینسز استعمال ہو رہی ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق اب لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا پورا نظام آن لائن ہوچکا ہے، جس کی مدد سے اب مریض موبائل فون کے ذریعے اپنے ٹیسٹ کا نتیجہ اور دیگر معلومات حاصل کرسکتا ہے۔
ہسپتال کی مزید ترقی کے متعلق محمد عاصم نے بتایا کہ بورڈ آف گورنرز ہسپتال میں میڈیکل کالج اور سٹروک (فالج) کے لیے ایک الگ یونٹ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔