Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا دیگر ممالک سے موازنہ درست ہے؟

وزیراعظم کی جانب سے قیمتوں کے موازنے پرفرخ سلیم نے کہا کہ اس طرح کا موازنہ اکنامکس نہیں بلکہ سیاست ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حکومتوں بالخصوص تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جب بھی مہنگائی کی بات ہوتی ہے تو حکومتی رہنماؤں بشمول وزیراعظم دیگر ممالک کے ساتھ قیمتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
بدھ کو بھی وزیراعظم نے قوم سے خطاب کے دوران جب ریلیف پیکج کا اعلان کیا تو انھوں نے خطے کے ممالک کے ساتھ پیٹرول سمیت دیگر اشیا کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پیٹرول سب سے کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔
ایسے میں اپوزیشن اور سوشل میڈیا پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ مہنگائی کا موازنہ کرتے ہوئے معیشت کے بنیادی عناصر کو نظرانداز کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ملکوں کے درمیان مہنگائی کا موازنہ کرنے کا بنیادی طریقہ کار کیا ہے؟ معاشی ماہرین حکومتی رہنماؤں کی جانب سے کیے جانے والے موازنے کو معیشت کے بنیادی اصولوں کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو بھی اس حوالے سے درست آگاہی نہیں دی جارہی۔
معاشی ماہر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’دنیا بھر میں ملکوں کے درمیان مہنگائی کا موازنہ کرنے کے لیے اکنامکس کی تھیوری پرچیزنگ پاور پیرٹی یعنی قوت خرید کی برابری کا اطلاق کیا جاتا ہے جو ایکسچینج ریٹ کی بنیاد پر ڈالر کے حساب سے قوت خرید کا تعین کرتی ہے اور اس کی بنیاد لا آف پرائس ہے۔‘
انھوں نے مثال دے کر بتایا کہ ’پاکستان میں کسی چیز کی قیمت ایک سو روپے ہو تو ڈالر میں 60 سینٹ کی بنے گی۔ تاہم جب اسے پرچیزنگ پاور پیرٹی کے تحت دیکھیں گے تو قیمت چار گنا بڑھ کر دو ڈالر اور چالیس سینٹ بنتی ہے کیونکہ پاکستان میں لوگوں کی قوت خرید کم ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹکا کے لحاظ سے قیمت اگر 80 سینٹ بن رہی ہو تو ہم کہیں گے بنگلہ دیش میں قیمت زیادہ ہے لیکن بنگلہ دیش میں پرچیزنگ پاور پیرٹی دو اعشاریہ سات ہے جو پاکستان سے کم ہے تو اس کے نتیجے میں ان کے ہاں اس چیز کی قیمت مشکل سے دو ڈالر بنے گی۔‘

بدھ کو بھی وزیراعظم نے پیٹرول سمیت دیگر اشیا کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پیٹرول سب سے کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’قیمتوں کا موازنہ کرتے ہوئے قوت خرید کی ایڈجسٹمنٹ نہیں کرتے۔ افسوس سے یہ کہنا پڑا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو بھی یہ بات نہیں بتائی گئی اور انھیں پتا ہی نہیں ہے کہ پرچیزنگ پاور پیرٹی کیا چیز ہے۔ وہ صرف ڈالر کے ساتھ ایکسچینج کرکے بتا دیتے ہیں اور ایڈجسٹمنٹ نہیں کرتے۔‘
معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کسی بھی ملک کے ساتھ مہنگائی کا موازنہ کرنے کا کتابی طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ اپنی اور ان کی افراط زر کی شرح کو دیکھ لیا جائے۔
کچھ دن قبل اکانومسٹ میگزین نے 40 ممالک کی افراد زر کی شرح جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک تھا۔
’اگر خطے کو بھی دیکھیں تو بھی پاکستان کی افراط زر کی شرح انڈیا اور بنگلہ دیش سے دوگنا زیادہ ہے اور ہم پہلے نمبر ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مہنگائی کے موازنے کا ایک اور پیمانہ یہ ہے کہ آپ اپنی تاریخ دیکھ لیں۔ اس وقت اگر ہم دیکھیں تو تین سال پہلے آٹا اگر 35 روپے تھا تو اب 75 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ چینی 55 روپے سے آج 140 سے 150 تک فروخت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کا تین سال کا دورانیہ نہیں ملتا جس میں آٹے کی قیمت سو گنا بڑھ گئی ہو۔‘

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اوسط آمدنی 66 ہزار ڈالر جبکہ پاکستان میں 1190 ڈالر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’1960 سے لے کر 2018 تک ملک میں اوسط آمدن مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ 1960 میں اوسط آمدن 83 ڈالر تھی اور 2018 میں 1480 ڈالر تک پہنچی۔ اب مسلسل تین سال سے فی کس آمدن گر رہی ہے۔ یہ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے کہ مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اور آمدن بھی کم ہو رہی ہے۔‘
وزیراعظم کی جانب سے کیے گئے موازنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کا موازنہ اکنامکس نہیں بلکہ سیاست ہے۔ اس کے ساتھ فی کس آمدن بتائے بغیر بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ امریکہ میں پہٹرول کی قیمت ایک ڈالر ہے اور اگر اس کو پاکستان کے حساب سے دیکھیں تو 170 روپے بنتی ہے جبکہ پاکستان میں 137 روپے ہے، لیکن امریکہ میں اوسط آمدنی 66 ہزار ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں 1190 ڈالر ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان اور امریکہ میں مہنگائی کا موازنہ کرنا کتنا مناسب ہوگا۔

شیئر: