دنیا بھر میں کریڈٹ کارڈ سے خریداری، پاکستان میں ناپسندیدہ کیوں؟
دنیا بھر میں کریڈٹ کارڈ سے خریداری، پاکستان میں ناپسندیدہ کیوں؟
جمعرات 4 نومبر 2021 8:48
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان میں کارڈ سے لین دین کو کسی بھی وجہ سے ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔ (فوٹو اے ایف پی)
آپ کسی بڑے سے میڈیکل سٹور پر 10 فیصد ڈسکاؤنٹ کا بورڈ دیکھ کر دوائی لینے کے لیے داخل ہوں اور ادویات خریدنے کے بعد جب بل دینے کی باری آئے اور آپ اپنی جیب سے کارڈ نکالیں چاہے وہ کریڈٹ کارڈ ہو یا ڈیبٹ کارڈ تو کیش کاونٹر والا آپ کو بتائے کہ سر یہ ڈسکاؤنٹ صرف کیش پر ملے گا تو آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ آپ ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں کارڈ سے لین دین کو کسی بھی وجہ سے ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔
رامش عباد کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ خریداری کے لیے مشہور زمانہ عابد مارکیٹ گئے (جو کہ الیکٹرانکس کی لاہور میں سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے) جب بل دینے کا وقت آیا تو دکاندار نے کہا کہ اگر کارڈ ہے تو اس پر اڑھائی فیصد اضافی پیسے ادا کرنے پڑیں گے۔
’میں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہوئی تو دکاندار نے بتایا کہ ہمیں تو ہر لین دین پر اگر کارڈ کے ذریعے کریں تو اڑھائی فیصد بینک کو دینے پڑتے ہیں۔ مجھے اس بات کی کچھ سمجھ نہیں آئی اور میں نے ساتھ لگے بینک کے اے ٹی ایم سے پیسے نکلوائے اور کیش پیمنٹ دے کر چیز اٹھائی۔ میں بھلا اضافی پیسے کیوں دوں۔‘
اس طرح کی صورت حال آپ کو پاکستان کے کسی بھی شہر میں درپیش آ سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ لاہور میں ہوں۔
محمد علی کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پچھلے دنوں میں بچوں کی کتابیں لینے ایک دکان میں گیا تو 16 ہزار روپے کا بل بنا۔ جب میں بل کی ادائیگی کا وقت آیا تو دکاندار نے کہا کہ ہم آپ کو ہزار روپے کا ڈسکاؤنٹ دے رہے ہیں جب میں نے جیب سے ڈٰیبٹ کارڈ نکالا تو اچانک دکاندار کا رویہ بدل گیا۔ انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ اگر آپ بل کارڈ سے دیں گے تو پھر یہ ڈسکاؤنٹ آپ کو نہیں مل سکتا۔‘
ایک طرف تو یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف ملک کے بینک اور ٹیکس اکھٹے کرنے والے ادارے عوام کو صبح شام اس بات پر ابھارتے نظر آتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اپنے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے خرچ کریں۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد محصولات کے لیے ہر صوبے نے اپنا الگ محکمہ بنا لیا ہے۔ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی پنجاب ریوینیو اتھارٹی یعنی پی آر اے نے گزشتہ ایک سال سے ایک بھر پور کمپین لانچ کر رکھی ہے جس میں ایسے ریستوران جو ان کی بنائی ہوئی الیکٹرانک انوائس مانیٹرنگ سسٹم لگا رہے ہیں اور وہاں گاہک کارڈ سے بل کی ادائیگی کرتے ہیں تو انہیں جی ایس ٹی کی مد میں 16 فیصد کی بجائے پانچ فیصد وصول کیا جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں پانچ ہزار روپے کے کھانے کے بل میں آپ کو کم از کم ساڑھے پانچ سو روپے کی چھوٹ مل جاتی ہے۔
جاوید اقبال کے مطبق پنجاب میں ریستوران میں کارڈ استعمال کرنے پر آپ کو صرف پانچ فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے (فوٹو اے ایف پی)
پلاسٹک کارڈ ناپسندیدہ کیوں؟
لاہور میں محمود فارمیسی چین کے کسی بھی آوٹ لیٹ پر آپ کو کارڈ پر ڈسکاؤنٹ نہیں ملتا۔ فیصل ٹاون میں واقع ان کے فارمیسی کے مینیجر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں صحیح طرح تو نہیں پتا کہ ہماری کمپنی ایسا کیوں کرتی ہے، لیکن ہمیں یہ حکم بڑا واضح ہے کہ ڈسکاونٹ صرف ان گاہکوں کو دیا جائے جو کیش پر خریداری کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہ تو اس بات کی وجہ پوچھی نہ ہی کبھی ضرورت پیش آئی۔ ہاں لیکن اکثر گاہک اس بات پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے پالیسی ہی ایسی ہے۔‘
پنجاب میں ٹیکس اکھٹا کرنے والے ادارے پی آر اے کے ممبر جاوید اقبال شیخ کا کہنا ہے کہ ایسا سب کچھ شفافیت سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
’دیکھیں یہ تو سیدھی بات ہے جب آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے برقی ٹرانزیکشن کے ذریعے آئیں گے تو آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتے نہ تو اس کو ٹیمپر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو اپنے بینک اکاؤنٹ سے حذف کرنا آپ کے لیے ممکن ہے۔ تو لوگ شفافیت سے بچتے ہیں۔‘
’اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پیٹرول پمپس پر، میڈیکل سٹورز پر یا کسی ایسی دوسری جگہ پر یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ کارڈ مشین خراب ہے۔ تو یہ کاروباری افراد کا مزاج ہے۔ انہوں نے اصل کمائی کو ظاہر نہیں کرنا ہوتا اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیش پر ہی کام چلا لیں۔‘
جاوید اقبال نے بتایا کہ ’بینکوں نے اب لوگوں کو بے بہا کارڈ جاری کر رکھے ہیں اور شہریوں میں شعور بھی آتا جا رہا ہے۔ اس لیے اب کاروباری افراد کی بھی آہستہ ہستہ مجبوری بنتی جا رہے ہیں اب آپ کو پہلے سے زیادہ پلاسٹک کارڈ استعمال کرنے والی مشینیں نظر آرہی ہیں۔ مارکیٹ میں اس لیے اب اس میں بہتری آئے گی۔‘
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ لوگوں کو کارڈ استعمال نہ کرنے کی ترغیب دینے والے کاروباری افراد سے متعلق قانون کیا کہتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے کوئی فوجداری قانون تو نہیں ہے البتہ جتنی مجھے اس کام کی سمجھ ہے مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو اور کاروباری افراد کو پرکشش مراعات اور ٹیکس میں رعایت دے کر پلاسٹک کرنسی کو عام کیا جاسکتا ہے۔ جیسے پی آر اے اس وقت ریستورانوں اور بیوٹی پارلرز کو کر رہا ہے۔‘
جاوید اقبال کے مطابق ٹیکس کی چھوٹ دینے سے ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو اے ایف پی)
’ہمارے پاس پنجاب میں ایک ہزار ریستوران ہو چکے ہیں جہاں کارڈ استعمال کرنے پر آپ کو سولہ فیصد کی بجائے صرف پانچ فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے اور ہمارے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ لوگوں نے ان دو جگہوں پر بڑی تعداد میں پلاسٹک منی استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ اب چونکہ ابھی اشیا کا ٹیکس ایف بی آر دیکھ رہا ہے اور ہم سروسز ٹیکس کو دیکھ رہے ہیں تو اگر چاروں صوبوں میں مراعاتی پیکج دیے جائیں تو جلد عوام ان کاروباری افراد کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ان سے پلاسٹک کارڈ کے ذریعے لین دین کریں اس سے ٹیکس کے نظام بھی حد درجہ بہتری آئے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس کی چھوٹ دینے سے ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور پی آر اے کے سالانہ ٹیکس اہداف میں کمی بھی نہیں ہوئی۔