ایران سے جوہری معاہدے پر مذاکرات: امریکہ کے پاس کیا آپشنز ہوں گے؟
ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اس وقت طے کیا گیا تھا جب بارک اباما صدر اور جو بائیڈن نائب صدر تھے۔ فایل فوٹو: اے ایف پی
امریکہ ویانا میں ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات دوبارہ سے شروع کرے گا تاہم پچھلی بار کی نسبت اس بار امریکہ زیادہ پُر امید نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو پونے والے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امریکہ کے پاس تہران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے آپشنز محدود ہوں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں اس عالمی ڈیل سے دستبرادار ہوگئے تھے اور ایران پر وہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں جو معاہدے کے تحت ہٹائی گئی تھیں۔
اس کے جواب میں ایران نے ان پابندیوں کی کئی بار خلاف ورزی کی جو اس کے جوہری پروگرام پر لگائی گئی تھیں۔
یہ جوہری معاہدہ 2015 میں اس وقت کے صدر باراک اباما نے کیا تھا، جس دور میں جو بائیڈن نائب صدر تھے۔
جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’اگر ایران اصل شرائط کی طرف جاتا ہے تو وہ ڈیل کی طرف واپس جانا چاہیں گے۔‘
ایران کی جانب سے پانچ ماہ کی معطلی کے بعد ویانا میں بالواسطہ مذاکرات پیر کو ایک بار پھر شروع ہوں گے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا بدھ کو کہنا تھا کہ ’مفاہمت پر تیزی سے پہنچنے اور اس پر عمل کرنے کی گنجائش باقی ہے۔‘
تاہم ایران میں امریکہ کے سفیر روب مائیلی کا کہنا ہے کہ ’تہران کا رویہ ’مذاکرات کے لیے مناسب‘ نہیں ہے۔‘
واشنگٹن نے ایران پر سست رو ہونے اور اپنے ’بنیاد پرست‘ مطالبات بڑھانے کا الزام لگایا ہے۔
تاہم ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں پھر بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔
روب مائیلی کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات بحال ہونے کے بعد امریکہ کو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کا مقصد صرف اپنا جوہری ہتھیار بنانے کے لیے وقت لینا ہے تو امریکہ ’ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ گا۔‘
’ہمیں سفارتی کوششوں سمیت دیگر اقدامات دیکھنے ہوں گے تاکہ ایران کے جوہری عزائم سے نمٹا جاسکے۔‘
سفارتی آپشنز میں سے ایک ممکنہ عبوری معاہدہ ہے۔