انگلش چینل میں ڈوبنے والی کرد خاتون کے والد کا احتجاج
انگلش چینل میں ڈوبنے والی کرد خاتون کے والد کا احتجاج
اتوار 28 نومبر 2021 19:41
عراقی کردستان سے نوری امین نے انسانی سمگلرز کو 'مافیا' قرار دیا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
برطانیہ اور فرانس کے مابین انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب کر ہلاک ہونے والی عراقی کرد خاتون کے والد نوری امین نے انسانی سمگلر کو 'مافیا' کہتے ہوئے اس عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کرد خاتون مریم کے انگلش چینل میں ڈوبنے کے بعد لندن میں احتجاج کے دوران برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین کے لیے محفوظ راستہ کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 24 سالہ کرد مریم نوری محمد امین ان 27 افراد میں شامل تھیں جو بدھ کو انگلش چینل میں کشتی حادثہ کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ مریم اپنے منگیتر تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی جو پہلے سے ہی برطانیہ میں موجود تھے۔
مریم کے والد نوری محمد امین نے عراقی کردستان کے علاقے صوران سے بات کرتے ہوئے انسانی سمگلرز کو قصائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آفت نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے کردستان اور دنیا کے لیے ایک المیہ ہے۔
نوری محمد نے مزید کہا ہے کہ فرانسیسی حکومت سے میری درخواست ہےکہ اپنی سرحدوں پر سخت اقدامات کریں اور ان قصابوں کو روکیں کیونکہ یہ سمگلرز نہیں 'مافیا' ہیں۔
یہ انسانی سمگلرز جو کشتیاں استعمال کر رہے ہیں وہ اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں کہ آپ غریب انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کریں، میری بیٹی کے لیےانسانی حقوق کہاں ہیں؟
فرانسیسی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان قصائیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں تاکہ مزید حادثات سے بچا جا سکے۔
کرد خاتون کے والد نے کہا کہ مجھے امید ہے آئندہ ہمارے لوگ بھی نقل و حمل کے ایسے ذرائع سے ہجرت کرنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں گے۔
واضح رہے کہ مریم نوری کا اپنے منگیتر سے ملنے کا سفر جس میں ترکی، اٹلی اور جرمنی کے راستے فرانس جانا شامل تھا، حیران کر دینے والا تھا۔
مریم کے کزن کرمانج عزت درگالی نے یو کے میں ریڈیوسٹیشن ایل بی سی کو بتایا ہےکہ میری منگیتر برطانیہ میں نئی زندگی شروع کرنے کے لیےخوشی اور امید سے چہک رہی تھیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سنیچر کو تقریباً 150 افراد اس سانحے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لندن میں ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر جمع ہوئے۔ احتجاج کے دوران متعدد مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس حادثے کا سبب بننے والی کشتی میں 10 مسافروں کی گنجائش تھی جس میں ضرورت سے زیادہ افراد بھرے ہوئے تھےجو کسی کنٹینر جہاز سے ٹکرا گیا اور اس سانحے کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے۔
یہ احتجاج جزوی طور پر مجوزہ قومیتوں اور سرحدوں کے بل کے جواب میں تھا، جس میں ایسے لوگوں کو ملک بدر کرنے کے نئے اختیارات شامل ہیں جن کو برطانیہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
برطانیہ میں پناہ کے متلاشی ایک امدادی و خیراتی ادارے کی رضاکار لارا بشپ نے اس موقع پر کہا ہے کہ ہم دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہیں جب کہ ہم صرف ایک فیصد ہی پناہ گزینوں کو لیتے ہیں لیکن ایسے تارکین کے لیے چینل میں ہلاک ہو جانا بالکل بھی ٹھیک نہیں۔
لارا بشپ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں کو انسانیت کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت وہ انہیں سیاسی طور پر استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ انسان ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس سال تقریباً 25 ہزار افراد نے شمالی فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحراوقیانوس کا انگلش چینل عبور کیا جس کی وجہ سے لندن اور پیرس کے درمیان تناو کا ماحول پیدا ہوا۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ایک خط میں متنبہ کیا ہے کہ جب تک فرانس انگلش چینل عبور کرنے کی کوشش کرنے والی کشتیوں کی تعداد کم کرنے کے منصوبے پر بات چیت میں واپس نہیں آتا تو یہ تارکین ایسے ہی ہلاک ہوتے رہے گے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میخرون نے اس خط کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس کے بعد برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کو اس ہفتے کے آخر میں اپنے یورپی یونین کے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت سے روک دیا گیا جس کا مقصد مشترکہ حل تلاش کرنا تھا۔