Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں صحافیوں کو لفافے دینے والا آدمی نہیں، جوتے ماروں گا‘

سردارعبدالقیوم خان نیازی نے چار اگست 2021 کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی نے ایک جلسے سے خطاب میں بعض صحافیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں لفافے دینے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں جوتیاں ماروں گا۔‘
سردار عبدالقیوم نیازی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پونچھ ڈویژن میں واقع اپنے آبائی علاقے عباس پور میں بدھ کو ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عبدالقیوم نیازی کے الفاظ کیا تھے؟
انہوں نے کہا کہ ’میرے سے ایک دو اخبار والے خفا ہیں۔ میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں پریس کے توسط سے کہ میرے پاس لفافہ کوئی نہیں ہے، میں لفافے دینے والا آدمی نہیں ہوں۔ اس بنیاد پر مجھے بلیک میل کرو کہ نیازی کو بلیک میل کریں گے، جھوٹی خبریں لگائیں گے تو لفافے گھر آئیں گے۔ میں جوتیاں ماروں گا ایسے لوگوں کو۔‘
’ہم کام کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے کام لوگوں کو بتاؤ۔ ایسی خبریں مت پھیلاؤ جو تم اپنی ذات کے لیے کرتے ہو۔ جو اپنی ذات کے لیے کام کرنے والے لوگ تھے، ان کا انجام دیکھ لو۔ اگر اسی طرح کرو گے تو پھر اپنا انجام بھی دیکھ لینا۔‘
عبدالقیوم نیازی کی تقریر کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب وہ صحافیوں ’جوتیاں مارنے‘ کی بات کرتے ہیں تو اس پر ان کے پارٹی کارکن تالیاں بجاتے ہیں۔
کشمیر کے صحافتی حلقوں میں عبدالقیوم نیازی کے اس بیان کے بعد بحث ہو رہی ہے۔
’حکومت کو ایسے ہی صحافی چاہئیں‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں مقیم سینیئر صحافی طارق نقاش تسلیم کرتے ہیں کہ ’ہماری صفوں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صحافیوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر حکومت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کسی صحافی نے کوئی ایسی خبر لگائی ہے تو وزیراعظم کو اس کا نام لینا چاہیے تھا۔ جوتیاں مارنے والی بات وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہے۔‘
’صحافت میں شفافیت لانے کے لیے کسی حکومت نے بھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔ حکومت اس معاملے میں خود سنجیدہ نہیں ہے، اسے ایسے ہی صحافی چاہئیں۔‘
’میرا کافی عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں عدالتی پیچیدگیوں سے بچتے ہوئے غلط خبر دینے والے رپورٹر اور شائع کرنے والے اخبار کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔‘
’وزیراعظم کا بیان شرانگیز ہے‘
اسلام آباد راولپنڈی میں کام کرنے والے کشمیری صحافیوں کی تنظیم کشمیر جرنلسٹ فورم کے صدر زاہد عباسی نے کہا کہ ’وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے صحافیوں کو جوتے مارے جانے کا بیان افسوس ناک اور ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔اس شرانگیز بیان سے پوری صحافتی کمیونٹی میں تشویش پائی جاتی ہے۔‘
’اگر وزیراعظم کو کوئی صحافی بلیک میل کرتا ہے تو اس حوالےسے قوانین موجود ہیں وہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں۔لیکن اس طرح کی شر انگیزی کسی طور پر صحافتی کمیونٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔‘
’وزیراعظم اس طرح بھرے مجمعے میں ہرزہ سرائی سے محض سستی شہرت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس عمل سے وہ اپنے منصب کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘
’ہمارے کچھ لوگ بھی بلنڈر کرتے ہیں‘

پاکستان زیر انتظام کشمیر کے کئی اخبارات اسلام آباد اور راولپنڈی سے شائع ہوتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 
سنٹرل پریس کلب مظفرآباد کے صدر سجاد میر نے اردو نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس وقت میڈیا ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس پر لوگوں کا اعتماد ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے کچھ لوگ بھی بلنڈر کرتے ہیں۔‘
’اگر آپ کسی خبر کے لیے درکار تمام عناصر کو ملحوظ رکھیں گے تو کوئی بھی آپ کو کچھ نہیں کہے گا لیکن میں وزیراعظم کی جانب سے جوتیاں مارنے والے الفاظ کو مناسب نہیں سمجھتا۔‘
’اگر آپ کو کسی صحافی یا اخبار سے شکایت ہے تو آپ مناسب فورم یعنی عدالت سے رجوع کریں۔‘
’صحافت کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے پر کام کرنے والے صحافی نہیں‘
اس حوالے سے جب وزیراعظم کے پریس سکریٹری حبیب احمد سے اردو نیوز نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا یہ بیان سیاق وسباق سے بالکل ہٹا کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے علم بردار ہیں۔ وہ صحافیوں کے لیے اہم پیکجز لا رہے ہیں۔‘
’ایک دو اخبار میرے سے ناراض ہیں‘ عبدالقیوم نیازی کے اس جملے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’مقامی سطح پر کچھ لوگ یہ خبریں پھیلا رہے ہیں کہ وزیراعظم عباس پور کے نادرا سنٹر کو یہاں سے منتقل کرنا چاہتے ہیں، ان کی جانب وزیراعظم نے اشارہ کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم نے کسی بھی صحافی کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں سے متعلق یہ بات کی ہے، جو لوگ صحافت کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، وہ صحافی نہیں ہیں۔‘

شیئر: