حیدرآباد کے قلب میں واقع یہ عمارت مسافروں اور سیاحوں کو اپنی جانب نہ صرف راغب کرتی ہے بلکہ حیدرآباد کی شناخت ہی چارمینار سے ہے۔
چار مینار کی تعیمر
چار مینار چار صدیوں سے زیادہ پہلے قطب شاہی خاندان کے پانچویں سلطان یعنی سلطان محمد قلی قطب شاہ نے تعمیر کرایا تھا۔ اس کی بالائی منزل پر ایک مسجد ہے، جس کو اب بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے تعمیری کام کی شروعات 1591 کے لگ بھگ ہوئی تھی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ اپنے دارالحکومت کو گولکنڈہ سے منتقل کر کے حیدرآباد لانا چاہتے تھے، اسی لیے اس کی تعمیر کی گئی تھی۔
کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ سلطان ہیضہ کی وبا کے باعث اپنا دارالحکومت منتقل کرنے پر مجبور ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سلطان نے دعا کی تھی کہ اگر یہ وبا ختم ہوجائے گی تو وہ ایک مسجد تعمیر کرائیں گے اور جب شہر سے ہیضہ ختم ہو گیا تو سلطان نے چار مینار تعمیر کرایا، جس کی بالائی منزل پر ایک مسجد ہے۔
یہ ڈھانچہ چہار جانب سے چار مینار پر کھڑا کیا گیا ہے، اسی لیے اسے چار مینار کا نام دیا گیا تھا، جہاں سے پورے شہر کی نگرانی کی جا سکتی تھی۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ کون تھے؟
محمد قلی قطب شاہ 1565 میں پیدا ہوئے اور 1612 میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ سلطنت قطب شاہی کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دار السلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا تھا۔ سلطان محمد قلی قطب شاه کو اردو کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
قطب شاہی سلطنت کیسی تھی؟
دکن میں قطب شاہی سلطنت کا دور 1512 سے 1687 تک تقریباً ڈیڑھ سو سال کا رہا۔ اس کو گولکنڈہ سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل دکن بہمنی سلطنت کے زیرِ نگیں تھا۔ بعد میں 1687 میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے دکن کو فتح کر لیا اور آخری قطب شاہی فرمانروا سلطان ابوالحسن قطب شاہ کو گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی قطب شاہی دور تو ختم ہو گیا لیکن حیدرآباد میں قطب شاہی سلطنت نے جو نقوش چھوڑے وہ کبھی مٹ نہیں سکتے ہیں۔
تاریخی عمارت کی تزئین کاری
چار سو برس کی اس تاریخی عمارت کی تزئین کاری کا کام بھی کئی بار کیا گیا اور کئی بار اس عمارت کو نقصان بھی پہنچا۔ جیسے آصف جاہی اور قطب شاہی کی گورنری کے دوران مینار کو آسمانی بجلی سے نقصان پہنچا تھا جس کی مرمت کا کام کرایا گیا۔ اس کے علاوہ 1824 میں بھی نیا پلاسٹر کرانے کا کام کرایا گیا تھا اور آج بھی اس کے پلاسٹر کا کام کرایا جا رہا ہے۔
فی الحال یہ یادگار انڈیا کے آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے جو اس کے تحفظ اور دیکھ بھال کا کام کرتا ہے۔
چار مینار کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹس کی عارضی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ان علاقوں میں بننے والی اکثر فلموں میں اس کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔
چار مینار کا فن تعمیر
حیدرآباد میں مقیم ایک ایرانی انجینیئر میر مومن آستاراواڈی نے چارمینار کو ڈیزائن کیا تھا۔ یہ عمارت انڈین اسلامی طرز تعمیر کو پیش کرتی ہے۔ عمارت چونا پتھر، گرینائٹ، پولویرائزڈ ماربل اور مارٹر سے بنائی گئی ہے۔
چار مینار بالکل مربع سائز کا ڈھانچہ ہے جو ہر طرف 20 میٹر لمبا ہے۔ چار عظیم الشان محرابیں اور چاروں کونوں پر چار مینار اس یادگار کو ایک خاص شکل دیتے ہیں۔ ہر مینار چار منزلہ اور 56 میٹر اونچا ہے۔ اس کے اوپری حصے پر گنبد نما ساخت ہے۔ اس میں کل 149 سیڑھیاں ہیں۔
سیاحوں کی دلچسپی
آج سیاح بڑی تعداد میں چارمینار دیکھنے پہنچتے ہیں۔ پہلی منزل پر پہنچ کر یہاں سے شہر اور قریب کے بازار کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دوسری منزل پر ایک مسجد ہے، جسے اب بند کر دیا گیا ہے۔ سیاحوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے جبکہ پہلی منزل پر بالکونی ہے، جہاں سے سیاح باہر کا نظارہ کرتے ہیں۔
اس کے چاروں جانب ایک بڑا بازار ہے، جسے لاڈ بازار یا چوڑی بازار کہا جاتا ہے، جہاں سیاح شاپنگ کے لیے پہنچتے ہیں، اس بازار کو حیدرآباد میں مرکزیت بھی حاصل ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا
یہ ڈھانچہ آثار قدیمہ اور آرکیٹیکچرل ورثے کے تحت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت درج ہے۔ چار مینار کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹس کی عارضی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔