Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلدیاتی انتخابات میں شکست پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

محمود جان بابر کے مطابق ’بلدیاتی انتخابات میں مولانا نے ثابت کیا کہ وہ ابھی بھی صوبے کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو کئی مقامات پر شکست ہوئی ہے اور صوبے کی اہم تحصیلوں حتیٰ کہ صوبائی دارالحکومت میں بھی اسے جمعیت علمائے اسلام کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔
اب تک کے غیرحتمی غیرسرکاری نتایج کے مطابق خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں کونسل میئرز کے لیے ہونے والے انتخابات میں اکثر مقامات پر تحریک انصاف کو شکست کا سامنا ہے۔
وفاقی وزیر شبلی فراز سمیت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنما اس غیرمتوقع شکست کو مہنگائی اور اندرونی لڑائی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مقامی صحافی محمد ریاض نے بتایا کہ اب خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں سے 18 میں جمعیت علمائے اسلام فتح یاب ہو چکی ہے جبکہ پشاور کی سٹی کونسل میں بھی مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی فتح یقینی ہے۔ اس طرح جے یو آئی انتخابات میں پہلے نمبر پر آئی ہے جبکہ پی ٹی آئی 15 تحصیلوں میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار ہیں اور پھر اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن نظر آتی ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں شکست پر وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس لیے ہاری کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو 14 اضلاع میں کامیاب ہوسکتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلدیاتی الیکشن میں کارکنوں کو متحرک نہیں کرسکے، اب اگلے انتخابات میں حکمت عملی تبدیل کریں گے اور پارٹی ڈسپلن قائم کریں گے۔‘
دوسری جانب صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ مہنگائی کو قرار دیا۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس لیے ہاری کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اچھے امیدوار کھڑے کیے تھے وہ بھی ہار گئے، اس کی وجہ مہنگائی بنی ہے لیکن ایزی لوڈ یا کرپشن کا الزام نہیں لگا۔‘
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’غلطیاں اور خامیاں ٹھیک کرنےکی کوشش کریں گے، دوسرے مرحلےمیں نتائج پہلےمرحلےسے مختلف ہوں گے۔‘

’پی ٹی آئی کا اتنی سیٹیں جیتنا بھی حیرت انگیز ہے‘

انتخابی اور پارلیمانی امور کے ماہر قریش خٹک کے مطابق لوگ جے یو آئی یا اے این پی کی فتح پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس بات پر حیرت  ہے کہ پی ٹی آئی کو اتنے ووٹ بھی کیسے مل گئے۔
’مجھے تعجب ہے کہ حکومت کی اتنی کمزور کارکردگی کے باجود اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پھر بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور تقریبا 15 تحصیلوں میں پارٹی کو فتح ملی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبے میں دو حکومتیں آئیں اور دونوں عوام کو سہولیات فراہم کرنےمیں ناکام ہوئیں۔ اب لگتا ہے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ابھی بھی تعجب ہے کہ پی ٹی آئی کو خاصے ووٹ پڑے۔ 
مستقبل میں پی ٹی آئی کی سیاست پر ان نتائج کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آٹھ سال بعد پی ٹی آئی کے زوال کا اگر ٹرینڈ چل پڑا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اب پی ٹی آئی اس لہر کو واپس موڑ سکے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابھی اپوزیشن کے جیتنے والے بلدیاتی عہدیدار اگلے الیکشن میں تحصیل کی سطح پر حکومت میں ہوں گے تو وہ بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکیں گے کیونکہ انتظامی مشینری ان کے ہاتھ میں ہو گی۔
تحریک انصاف کیوں ہاری؟
اخبار نوائے وقت کے پشاور میں بیورو چیف محمد ریاض کے مطابق ’پی ٹی آئی کی ہار کی وجہ یہ تھی کہ جماعت بلدیاتی انتخابات کے لیے آخری وقت تک ذہنی طور پر تیار نہ تھی بلکہ اس نے انتخابات رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تاہم جب انتخابات کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو پھر جماعت اس کی تیاری میں وہ جوش و خروش نہ دکھا سکی جو جے یو آئی، اے این پی اور پی پی پی نے دکھایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن نے مہنگائی اور بے روزگاری کا بیانیہ بنا کر الیکشن لڑا جب کہ پی ٹی آئی کا کارکن بددل تھا۔ آخری دنوں میں پٹرول کی قیمت میں پانچ روپےکمی سے عوام میں مثبت تأثر پیدا نہ ہو سکا، عوام حکمراں جماعت کے اس بیانیے سے متفق نہ ہوئے کہ مہنگائی کی لہر عالمی ہے۔‘
’دوسری طرف اپوزیشن کے امیدوار بھی مضبوط تھے اور انہوں نے مضبوط مالی سپورٹ سے مہم چلائی جبکہ حکمراں جماعت میں تقسیم تھی اور عام طور پر حکومت سے لوگوں کو شکایات ہوتی ہیں۔ ان سب وجوہات نے ہار میں اہم کردار ادا کیا۔‘
صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سینئر تجزیہ کار محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کی بڑی وجہ حکومتی کارکردگی پر ووٹرز کا عدم اطمینان ہے۔‘
’ان کی صوبے میں دوسری بار حکومت آئی تھی مگر ہیلتھ کارڈ کے علاوہ صوبے میں کوئی بڑا انقلابی قدم نہیں اٹھا سکے اور ہیلتھ کارڈ بھی ایک بیمہ پالسی کے طور پر عوام کو دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی تنظیم میں بہت تقسیم نظر آئی اور کئی جگہوں پر پارٹی کے دو دو امیدوار ایک دوسرے کے مقابل تھے جس کی وجہ سے مخالف امیدواروں کو فائدہ ہوا۔‘
’دوسری طرف جن اپوزیشن جماعتوں کو فتح ملی ہے وہ پہلے بھی ان حلقوں میں خاصا سیاسی اثر رکھتی تھیں مگر گذشتہ عام انتخابات میں انہیں طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل نہ تھی اس وجہ سے ان کے امیدوار نہیں جیت پائے تھے تاہم اب جب کہ سب نیوٹرل ہیں تو اپوزیشن کو اپنی حمایت دکھانے کا موقع مل گیا ہے۔‘
کیا اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے؟

 محمود خان بابر کے بقول ’صوبے میں جے یو آئی اور اے این پی نے بھی اہم سیاسی مقام حاصل کر لیا ہے۔‘ (فوٹو: فیس بک/ شاکر اللہ)  

محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’بلدیاتی انتخابات میں کارکردگی نے حکمران جماعت کے لیے آنے والے عام انتخابات میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگر آئندہ ایک سال تک پارٹی کچھ ڈیلیور کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو عام انتخابات کے نتائج مختلف نہ ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے رہنما طعنے دیتے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست ختم ہو گئی ہے مگر بلدیاتی انتخابات میں مولانا نے ثابت کر دیا کہ وہ ابھی بھی صوبے کے سب سے بڑے کھلاڑی ہیں۔‘
’صوبے میں جے یو آئی اور اے این پی نے بھی اہم سیاسی مقام حاصل کر لیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات سے قبل اپنے ناراض کارکنان کو منانے اور منظم کرنے میں کامیاب ہو گئی جو کہ مشکل لگتا ہے تو پھر اس کا کچھ چانس ہے ورنہ ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔‘
 

شیئر: