پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کرنال کے نواب تھے۔ بڑی جاگیروں کے مالک تھے جو سرکار برطانیہ نے 1857 ءمیں ان کے اجداد کو انعام کے طو رپر دی تھیں
جاوید اقبال
آسٹریا کے ریاض میں مامور سفیر ڈاکٹر انٹون پروہسکا کے نقطہ نظر سے میں آج بھی متفق نہیں ہوں۔ کوئی 20 برس قبل ایک محفل میں جمہوریت پر بات چل پڑی تھی۔ وہ یونانی فلسفیوں ارسطو، سقراط اور سوفوکلیز کی تحریروں سے حوالے دے کر مجھے جمہوریت کے ثمرات سے مطلع کرتے رہے تھے اور میں اس بات پر زور دیتا رہا تھا کہ کسی بھی معاشرے کو جمہوریت کا تحفہ دینے سے پہلے اسے چند ایک ایسے لوازمات ضرور مہیا کئے جائیں جو اسے خوف و حرص کی فضا سے نکال کر آزاد رائے دہی کا حق عطا کریں۔ میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کیلئے ایک مختلف پہلو سے بات کروں گا۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کرنال کے نواب تھے۔ بڑی جاگیروں کے مالک تھے جو سرکار برطانیہ نے 1857 ءمیں ان کے اجداد کو انعام کے طو رپر دی تھیں۔ لیاقت علی خان سب کچھ وہیں چھوڑ آئے بدلے میںکسی چیز کی طلب نہ کی۔ شہادت کے بعد ان کے خون آلود بدن پر سے پھٹی بنیان اتاری گئی ۔ پہلی اہلیہ جمیلہ بیگم سے ایک بیٹا ولایت حسین تھا جس کا انتقال 1982 ءمیں ہوا۔ دوسری اہلیہ رعنا لیاقت علی سے ایک فرزند اشرف علی خان کا 72 برس کی عمر میں سرطان سے انتقال ہوا۔ شہید ملت نے ترکے میں کوئی سیاسی وارث نہ چھوڑا۔ بعدازمرگ ، سکوت! سکوت!!
غلام محمد ایک بیمثال ماہرِ مالیات تھے۔ اپنے دور اقتدار میں بدعنوانی کا ایک دھبہ بھی ان کے نام پر نہ لگا۔ اسکندر مرزا نے ان کے مفلوج بدن کو اٹھوا یا اور ان کی ہمشیرہ کے ہاں بھجوا دیا۔ کوئی اور وارث نہ تھا۔ پاکستان کا گورنر جنرل ! کوئی نشان نہ رہا!
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956 تا 17 اکتوبر 57 پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ 1920 ءمیں نیاز فاطمہ سے شادی ہوئی جو اس وقت کے متحدہ بنگال کے وزیر داخلہ سرعبدالرحیم کی صاحبزادی تھیں۔ 2 بچے ہوئے، احمد شباب اور بیگم اختر سلیمان۔ اول الذکر لند ن میں نمونیا کے حملے سے جانبر نہ ہوسکے ۔ بیگم اختر سلیمان کی بیٹی شاہدہ جمال کچھ عرصہ پاکستان کی وفاقی وزیر قانون رہیں۔ سہروردی نے دوسری شادی روسی خاتون سے کی ۔ اس سے ایک بیٹا رشید سہروردی لندن میں مقیم اور تھیٹر کا اداکار ہے ۔ سہروردی کی موت اور تدفین بیروت میں ہوئی۔
رہے نام اللہ کا۔ پاکستان کے پانچویں وزیراعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر 17 اکتوبر 57 تا 16 دسمبر 57 صرف 2 ماہ برسراقتدار رہے۔ لواحقین کا کچھ علم نہیں کہ کہاں گئے۔
وطن عزیز کے 7 ویں وزیراعظم ملک فیروز خان نون 16 دسمبر 57 تا 7 اکتوبر 58 ءاقتدار میں رہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور رانر ٹمپل لاءاسکول سے حصول تعلیم کے بعد ایک آسٹریائی خاتون وکٹوریا رِکی کو مشرف بہ اسلام کیا، اس سے شادی رچائی اور پھر اسے بیگم وقار النساءنون بناکر پاکستان لے آئے۔
5 تصانیف اور اپنی بیوہ وطن کو ترکے میں دے گئے۔ بیگم وقار النساءنون سماجی کاموں میں سرگرم رہیں۔ آسمانِ سیاست پر بھنگڑے ڈلوانے کو کوئی اولاد نہیں تھی۔
وطن عزیز کے چوتھے وزیراعظم چوہدری محمد علی 12 اگست 1955 ءتا 12 ستمبر 1956 اقتدار میں تھے۔ بانی پاکستانی محمد علی جناح کے زیر نگرانی انہیںکام کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے تشکیل کردہ ”تقسیم کمیشن“ کے ریکارڈ کی نگہداری کرنے والے 2 نائبین میں سے ایک تھے۔ پاکستان کی سول سروس کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ صرف ایک بیٹا خالد انور ہے۔ معروف قانون دان اور ماہر آئین ہے۔ میاں نواز شریف کی کابینہ میں کچھ عرصہ وزیر قانون، انصاف اور انسانی حقوق رہا پھر گوشتہ نشین ہوگیا۔ جب چوہدری محمد علی 2 دسمبر 1980 ءکو آسودہ ¿خاک ہوئے تو خارزارِ سیاست میں آبلہ پائی کو خاندان کا کوئی فرد نہ چھوڑا۔
1956 تا 1958 ء پاکستان کے صدر اور اس سے قبل 1955-56 ءمیں گورنر جنرل رہنے والے اسکندر مرزا نے اپنے دور صدارت میں 4 وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔ 7 اکتوبر 1958 ءکو مارشل لاءلگایا اور پھر صرف 20 دن بعد مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے انہیں لندن ارسال کردیا۔ اسکندر مرزا کے آخری ایام بڑی کسمپرسی میں گزرے۔ وہاں ایک پاکستانی ہوٹل کا انتظام سنبھالا اور مستقل ذریعہ آمدنی صرف اپنی صدارت اور فوجی خدمت کی پنشن 3000 پونڈ سالانہ پر گزارا چلتا رہا۔ آخری ایام میں اسپتال میں داخل تھے تو تنگدستی سے پریشان ہوکر اہلیہ ناہید اسکندر مرزا سے کہا :علاج کےلئے رقم نہیں، مجھے مر جانے دو۔13 نومبر 1969 ءمیں جب انتقال ہوا تو صدر یحییٰ خان نے انکے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی اجازت دینے سے انکا ر کردیا چنانچہ شاہ رضا شاہ پہلوی نے ذاتی طیارہ بھیج کر انکی نعش تہران منگوائی اور شاہی قبرستان میں تدفین کرائی۔ اسکندر مرزا کی پہلی شادی ایک بنگالی خاتون رفعت بیگم سے ہوئی۔ 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہوئیں۔ ایک بیٹا ہمایوں مرزا حیات ہے، دوسری شادی اکتوبر 1954 ء میں ایک ایرانی رئیس امیر تیمور کی بیٹی ناہید امیر تیمور سے ہوئی۔ وہ نصرف بھٹو کی سہیلی تھی۔ دونوں خواتین کی دوستی ہی ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست میں لائی۔ اسکندر مرزا اوران کی اگلی نسل کے کسی بھی فرد کا نام آج کی تاریخ میں نہیں ملتا۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے....
میں آسٹریائی سفیر کے نقطہ نظر سے نہ 20 برس پہلے متفق تھا نہ آج ہوں۔ اسکا کہنا تھا کہ انتخابات کا مسلسل انعقاد قوم کو جمہوریت کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ میں اسے حقیقت کیسے بتاتا؟ کیوں اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹاتا؟ میں اسے کیوں بتاتا کہ انتخابات کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل چوراہوں پر ، گلیوں میں دیگیں آگ پر چڑھا دی جاتی ہیں۔ لنگر جاری ہوتے ہیں۔ انتخاب کے دن رائے دہندگان سائیں کی گاڑیوں میں بھرے جاتے ہیں اور انہیں پولنگ اسٹیشن لے جایا جاتا ہے۔ وہ اندر جاکر اپنا ووٹ بنواتے ہیں اور پھر باہر آکر سائیں کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔ نمک کھایا تھا، نمک کھا رہے ہیں ، دھونس! دھاندلی! سرپھٹول!
میں اس مغربی ملک کے سفیر کو کیوں بتاتا کہ کبھی ہمارے رہنما اپنی اکیلی ذات رکھتے تھے۔ برخاست کئے جانے پر خاموشی سے تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے تھے۔ بے داغ ماضی اور حب الوطنی کی داستانیں چھوڑ جاتے تھے لیکن آج ہوسِ اقتدار اور طلب جاہ نے خاندانوں کے خاندان دیوانہ بنارکھے ہیں۔ دادا.... بیٹا.... پوتا....پوتی ....بیٹی.... بھائی ....بہن.... سب ہیں! اور سیاسی طور پر بانجھ کردی جانے والی قوم مہر بلب ہے۔ بھائی باورچی! چوراہوں پر دیگیں کب کھلیں گی؟ بہت بھوک ہے!
******